Tuesday, 23 October 2018

بھٹ جا بھٹائی



ہالا میں پیدا ہونے والا عبدالطیف جسے دنیا شاہ عبدالطیف بھٹائی کے نام سے جانتی ہے دنیا سے رخصت ہونے کے 275 سال بعد بھی اپنے کلام کے ذریعے زندہ ہے، آج بھی بھٹ شاہ میں روزانہ کی بنیاد پرشاہ کے سینکڑوں مرید شاہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد شاہ کے راگی فقیروں کے کلام پر جھومتے ہیں۔ 
بدھ سے سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تین روزہ 275 واں سالانہ عرس شایان شان طریقے سے منایا جارہا ہے، اس ضمن میں سندھ حکومت کی جانب سے عرس کے پہلے روز عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی ۱۱۰۱ھ بمطابق ۱۶۸۹ء کو ضلع حیدرآباد کے تعلقہ ہالا میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام سید حبیب تھا ۔

آپ کے والد علاقہ میں تقوی اور پرہیز گاری کے لئے مشہور تھے اور قریب و جوار کے علاقوں میں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔شاہ عبدالطیف کی والدہ کا تعلق بھی سادات خاندان کے علمی گھرانے سے تھا ، پانچ سال کی عمر میں آپ کو آخوند نور محمد کی علمی درسگاہ میں داخل کیا گیا ، روایت ہے کہ شاہ عبدالطیف نے الف سے آگے پڑھنے سے انکار کردیا تھا لیکن شاہ صاحب کے کلام میں انکی علمی کوششوں کا عمل دخل نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے ۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام شاہ جو رسالو کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کو علم سے بخوبی واقفیت تھی، شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ میں فارسی اور عربی کا دور دورہ تھا اور شاہ صاحب کو سندھی کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی اور ان زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت تھی۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام میں عربی اور فارسی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے، نوجوانی میں اس زمانے کے انقلابات نے بھی شاہ عبدللطیف کو بہت متاثر کیا۔
شاہ صاحب کے کلام میں محبت، وحدت اور اخوت کا پیغام ہے ، شاہ صاحب کامطالعہ اتنا گہرہ تھا کہ اپنے
آس پاس جو دیکھا، جو محسوس کیا اسے اپنے شعر کے قالب میں ڈھال لیا ۔
عشق مجازی کے پردے میں عشق حقیقی کی چنگاری دل میں بھڑکی شاہ صاحب کی شاعری میں والہانہ روحانی کیفیت، تصوف سے گہری شاعری میں شاہ صاحب کے مخاطب عوام ہیں ۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں انسان کو ملک حقیقی کی یاد دلائی ہے، شاہ جو رسالو میں اشعار اس طرح کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ شاعر نے ان اشعار کو روحانی وجد کی حالت میں گایا ہے۔ شاہ صاحب کی پوری شاعری تلاش و جستجو کی شاعری ہے، شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں علاقے کی مشہور داستانوں مومل رانو، عمر ماروی، لیلا چینسر اور سسی پنوں سے تمثیلات کے طور پر بھرپور استفادہ کیا ہے ، شاہ عبداللطیف کی شاعری کا یہ حسن و کمال ہے کہ یہ موسیقی کی عصری روایت سے مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے اور گائے جانے کے قابل ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری سے سندھی زبان کو ہمیشہ کے لیئے زندہ کر دیا ہے، 
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا وصال تریسٹھ سال کی عمر میں ۱۴ صفر ۱۱۶۵ھ بمطابق ۱۱۷۶ عیسوی کو بھٹ شاہ میں ہوا ۔ اس زمانے کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ صاحب کے مزار پر ایک دیدہ زیب مقبرہ تعمیر کروایا جو آج محمکہ اوقاف سندھ کے زیر اثر ہے اور سندھی تعمیرات کا ایک شاہکار ہے ۔
شاہ جو رسالو شاہ عبدالطیف بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے جسے ایک روایت کے مطابق شاہ صاحب نے کراڑ جھیل کے کنارے بیٹھ کر لکھا ہے۔ شاہ جو رسالو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کی سرزمین پر قرآن و حدیث کے بعد اسے سب سے زیادہ مانا جا تا ہے۔
شاہ عبدالطیب بھٹائی کا عرس ہر سال اسلامی سال کے دوسرے مہینے صفر کی چودہ تاریخ کو عقیدت و احتام سے منایا جاتا ہے اس موقع پر بھٹ شاہ میں مختلف پروگرام اور تقریبات کے علاوہ شاندار محفل موسیقی بھی منعقد ہوتی ہے جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے فنکار شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کو گائیکی کے انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔


تحریر: وارث بن اعظم

Friday, 12 October 2018

Pakistan Legends Conference (PLC)



 ( پاکستان لیجنڈ کانفرنس ( سکھر یاترا


ویسے تو نوجوانوں کے لیے بہت سی جگہوں پر مختلف پروگراموں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے پر سکھر میں بارہ، تیرہ اور چودہ اکتوبر کوہونے والی تین روزہ پاکستان لیجنڈ کانفرنس کی اپنی ہی بات تھی۔اس کانفرنس میں پاکستان بھر سے اکہتر نوجوانوں نے اکیس شہروں کی نمائندگی کی،سکھر کی آئی بی اے یونی ورسٹی سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی پاکستان لیجنڈ کانفرنس میں پاکستان بھر کے مشہور مقررین نے اپنی تقریروں سے ملک بھر سے آئے ہوئے نوجوانوں کا خون گرمائے رکھا۔اکیس شہروں سے آئے ہوئے اکہتر نوجوان جو اپنے اپنے شعبے میں
نمایاں کام سر انجام دے رہے ہیں ان میں ایک یہ قلم قار وارث بھی تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ سکھر میں پاکستان لیجنڈ کانفرنس کے نام سے ایک تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں شامل ہونے کے لیے ملک بھر سے درخواستیں موصول کی گئیں اور پھر ان وصول کی گئی درخواستوں میں سے اکہتر خوش نصیب نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے منتخب کیا گیا۔
بارہ اکتوبر جمعہ سے شروع ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لئے یہ قلم کار جمعرات گیارہ اکتوبر کی رات بارہ بجے بذریعہ ٹرین سکھر روانہ ہوا۔ ایک قابل ذکر بات یہاں بتاتا چلوں کہ کانفرنس کے لیے جانے والا یہ قلم کار سکھر میں ہونی والی کانفرنس کے حوالے سے کسی سے کبھی باضابطہ طور پر نہیں ملا تھا صرف فون پر رابطہ تھا تو دل میں ایک عجیب سی کشمکش تھی کہ جایا جائے یا نہیں کیونکہ اس سے پہلے کبھی سکھر یاترا نصیب نہیں ہوئی تھی سو فیصلہ کرنے کی عادت ہماری یہاں بھی دوسری سوچوں پر حاوی ہوگئی اور بالآخر جانے کی ٹھان لی،تو رات ساڑھے پانچ بجے روہڑی اسٹیشن پر اترنا ہوا اب ایک اور بات کہ ہمیں یہ پتہ وہاں جا کر چلا کہ سکھر اور روہڑی دو اسٹیشن ہیں اور جس جگہ اس قلم کار کو پہنچنا ہے وہ روہڑی اسٹیشن سے چالیس منٹ کے فاصلے پر ہے ،پر جیسے تیسے کر کے اپنے مقررہ ہوٹل پر پہنچے تو وہاں اور ہی صورتحال تھی کیونکہ کانفرنس کے شرکاء کو گیارہ اکتوبر شام پانچ بجے تک ہوٹل پہنچنے کا کہا گیا تھا پر جب ہم پہنچے توصبح کے چھ بج رہے تھے اور کانفرنس کی انتظامیہ خواب خرگوش میں گم تھی ، پر ہمارے فون کرنے کے بعد ایک خوش شکل خوبصورت محترمہ نے ہمارے لیئے ہوٹل میں کمرے کاانتظام کر ہی دیا (یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پھرتین روز تک اس قلم کار کی نظریں اس خوش شکل محترمہ پر ہی مرکوز رہیں) خیر کمرے میں پہنچے اور ابھی سوئے ہی تھے کہ کوئی تیز تیز دروازہ پیٹنے لگا،اس کی کافی محنت کے بعد دروازہ کھولا تو ہمیں سامنے کھڑی ایک محترمہ نے جھنجلا کر کہا کہ اٹھ جائیں جناب صرف آپ کا انتظار ہے باقی سب تیار ہیں ہمیں آئی بی اے یونی ورسٹی کے لئے نکلنا ہے ،خیر بھاگم بھاگ تیار ہوئے اور ناشتے کے لئے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں پہنچے ایک سپ چائے کا لیا اور دیگر نوجوانوں کے ساتھ آئی بی اے یونی ورسٹی روانہ ہو گئے، یہاں تک کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی صرف ان دو لڑکوں کے علاوہ جو ہمارے ساتھ کمرا شیئر کر رہے تھے،خیر یونی ورسٹی پہنچ کر سیشن کے لیے مقررہ آڈیٹوریم پہنچے جہاں پر مختلف سیشن میں مشہور مقررین نے حوصلہ افزاء تقریریں کیں اور مختلف سرگرمیاں کروائیں، اس کے بعدوہاں سے ہم سب سے پہلے سکھر بیراج گئے پھر سعد بھیلو میں کشتی رانی کی سیر کی،
ٹیم جھولے لعل کے ہمراہ
سکھر کے مشہور سات بہنوں کا مزار دیکھا، قینچی پل کی سیر بھی کی وہاں سے شاہ نجف روہڑی بھی گئے ، سادہ لفظوں میں یہ کہ ایک خوبصورت اور تھکاوٹ بھرا دن گزار کر ہوٹل پہنچے تو بتایا گیا کہ ایک اور پروگرام میں جانا ہے پر اس قلم کار سمیت دیگر نے بھی صاف انکار کردیا پر جب بتایا گیا کہ ڈی جے پارٹی ہے تو
سب تیار ہوگئے۔اس ڈی جے پارٹی سے رات تین بجے واپس ہوٹل پہنچے۔ 
دوسرے دن پھر صبح سات بجے دروازہ پیٹا گیا،سکھر ہوٹل میں ناشتہ کیا اور یہاں سے خیر پورمیرس کی جانب روانہ ہوگئے،پیر ابھن شاہ کے مزار پہنچے جہاں ایک عجیب ہی سکون اور کشش تھی۔پھر کوٹ ڈیجی قلعہ گئے اور قلعے میں ہی ایکو ساؤنڈ کی موجودگی میں خوب محفل جمائی اور پورے قلعے کی سیر کی، یہاں سے سچل سرمست کے مزار پر روانہ ہوئے جہاں پر سچل کے مزار پر موجود ملنگوں کے ساتھ خوب دھمالیں ڈالیں۔ لگ بھگ رات آٹھ بجے تک واپس سکھر ہوٹل پہنچے تو یہاں ثقافتی پروگرام کی تیاریاں مکمل تھیں،جس کے لیے پاکستان بھر سے آئے ہوئے نوجوانوں نے اپنی اپنی ثقافت کے حساب سے لباس زیب تن کئے اس پرواگرام میں بھی خوب لطف اندوز ہوئے ،یہاں بھی مقررین نے حوصلہ افزاء سیشن دئے ، آخر میں لسی کی آمد نے تو محفل میں چار چاند لگا دئے اور اس قلم
قلم کار شہید بھتو کے مزار پر
کار نے تو لسی کے بھر بھر کے دس سے بارہ گلاس پیئے۔
تیسرے اور آخری روز کا سفر صبح دس بجے لاڑکانہ روانگی سے شروع ہوا جس میں ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کر کے ہم اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گڑھی خدا بخش میں شہید بھٹو کے مزارپر پہنچے تو مزار کی خوبصورت عمارت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ مزار میں بی بی شہید اور بھٹو شہید سمیت دیگر شہداء کی قبروب پر فاتحہ خوانی کی، بعد ازاں وہاں سے موہن جو دڑو روانہ ہوئے۔
موہن جودڑو جسے جب بھی بیس کے نوٹ پر دیکھتے تھے تو وہاں جانے کی خواہش ہوتی تھی خیر ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب دیکھنے کا شوق ہماراپورا ہو ہی گیا اور ہم اس تین روزہ کانفرنس کے آخری روز موہن جو دڑو پہنچ ہی گئے،میوزیم کا دورہ کیا، دڑے کی سیر کی گائیڈ سے ساری داستان سنی تصویریں بنوائیں خوب لطف اندوز ہوئے۔ یہاں سے شروع ہونا تھا اب واپسی کا سفر دو گھنٹے کا سفر طے کر کے واپس سکھر پہنچے یہاں پاکستان لیجنڈ کانفرنس کی آخری تقریب
جس میں سرٹیفیکٹس تقسیم کئے گئے میں شرکت کی۔
دوستوں کے ہمراہ واپس حیدراآباد جاتے ہوئے
پھر شروع ہوا ایک مسئلہ کہ واپس کیسے جایا جائے بس اڈے سے پتہ کروایا تو سیٹ ملنے کی امید نظر نہ آئی خیر حیدرآباد سے ہی آئے ہوئے اپنے د یگر تین ساتھیوں کے ہمراہ جن سے سکھر سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے ریلوے اسٹیشن کی جانب روانہ ہو گئے جہاں پر پہنچ کر ہمیں کسی ٹرین میں کوئی ٹکٹ نہیں ملا تو خیر خیر کرکے فیصلہ کیا کہ بغیر ٹکٹ چلتے ہیں ہمیشہ سنتے آئے ہیں کہ ٹرین کے اندر کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے دیکھ لیں گے خیر خیبر میل آئی اور اس میں ایک پولیس والے سے بات کی تو اس نے سیٹیں دلوادیں پر سیٹیں کچھ یوں ملیں کہ ہم چاروں الگ ہوگئے
 تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹرین کے ڈبوں کے گیٹ پر چادر بچھا کر سفر کرتے ہیں اس طرح ہمارا یہ سکھر سے حیدرآباد ساڑھے چار
گھنٹوں کا سفر بہت ہی شاندار گزرا۔
اب بات کریں پاکستان لیجنڈ کانفرنس کی تو اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں، آسان لفظوں میں لکھوں تو گیا اکیلا تھا ساتھ دوستوں کی فوج لایا ہوں۔ 
ایک اور قابل ذکر بات اس تین روزہ سفر کی یہ کہ ہم نے ایک نعرہ سیکھا جو ہمیشہ یاد رہے گا ،کیونکہ اس سے بہت یادیں وابستہ ہیں ۔ 
لما ٹینگ ٹینگ، لما ٹانگ ٹانگ، لما ٹینگ ٹپک کے ٹھاہ۔
ٹپک کے ٹھاہ۔
ٹپک کے ٹھاہ۔


قلم کار: وارث بن اعظم

Saturday, 8 September 2018

صحافت کی ویکی پیڈیا الیاس شاکر


صحافت کی ویکی پیڈیا الیاس شاکر

اردوکا ایک روشن ستارہ، بیش بہا نامعلوم شاگردوں کا استاد، صحافت کا پیکر،جس کا قلم جب بھی لکھتا تو لکھتا صرف سچ،معلومات اتنی کے قابل سے قابل انسان اُس کے دلائل کے آگے ڈھیر،حق گوئی کا ماہر ایک روشن باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا،حیدرآباد میں 26اکتوبر1951کو پیدا ہونے ولا الیاس جس کے بارے میں کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ یہ آگے چل کر ایسی گراں قدر خدمات انجام دے گا،تاریخ کے ہر اس پہلو پر نظر ڈالے گا،جسے بڑے بڑے نام والے صحافی لکھنے سے کتراتے ہیں،ہر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے گا جس سے کسی کی حق تلفی ہوئی ہو۔
نظم کرنے کو قوم کی تاریخ
مجھ سے کہتا تھا ایک دن کوئی
با ادب میں نے عرض کی کہ
مجھے نہیں آتی ہے مرثیہ گوئی 
قومی اخبار کے ایڈیٹر انچیف الیاس شاکر نے اپنی تحریروں کے ذریعے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے لیے بھی اہم خدمات انجام دی ہیں،بھاری، موٹے اور غیر ضروری الفاظ کے بغیر تحریریں سادہ اور اتنی نفیس لکھتے کے ہر پڑھنے ولا بغیر کسی دشواری کے سمجھ جائے۔تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا واقعہ ہو جس پر الیاس شاکر کا قلم خاموش ہو،الیاس شاکر نے ہر واقعے کے خلاف آوازبلند کی،خاص طور پر کراچی کے ہر مسائل کو اپنے قلم کے ذریعے اجاگر کیا اور حق و سچ کا علم بلند کیا۔الیاس شاکروہ شاہین ہے جس پر اقبال کا یہ شعر سو فی صد جچتا ہے کہ 
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرہ افتاد
الیاس شاکر صاحب سے کچھ عرصے قبل ایک اتفاقیہ ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں بتایا کہ سیاست سے لگاؤ ہے اور صحافت میں دلچسپی ہے کوئی گڑ بتایئے کہ میں اپنے یہ دونوں شوق ایک ساتھ پورے کر سکوں تو انہوں نے مجھے ایک خوبصورت جملہ کہ کر بات سمیٹ دی کہ بیٹا وقت کے ساتھ چلنا سیکھو۔
تاریخ کا یہ باب تاریخی خدمات انجام دینے کے بعد جمعہ کی رات سینکڑوں آنکھوں کو اشک بار کرتے ہوئے امر ہو گیا، دعا ہے اللہ پاک الیاس شاکر صاحب کے درجات بلند کرے۔ (آمین)

تحریر: وارث بن اعظم

Tuesday, 14 August 2018

Pakistan Independence Day



ہمیں سوچنا ہوگا


ابھی تک پاؤں سے لپٹی ہیں زنجیریں آزادی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا پر آزادی نہیں آتی

پاکستانی قوم نے اپنا بہترواں یوم آزادی خوب جوش و خروش سے منایا،گلی گلی،شہر شہر، گاؤں گاؤں تقریبات و ریلیوں کا انعقاد کیا گیا،منچلیں چودہ اگست کی رات بارہ بجتے ہی سڑکوں پر نکل گئے،حیدرآباد شہر کی بات کی جائے تو چودہ اگست کی رات جیسے ہی گھڑی کی سوئی بارہ پر آکر رکی تو شہر دھماکوں،پٹاخوں کی آواز سے گونج اٹھا، بات یہیں تک رہتی تو بہتر تھا پر فائرنگ کی آوازوں کے شروع ہوتے ہی ہم آزاد ملک کے شہری جنگی ماحول میں چلے گئے،گھروں میں بیٹھے بزرگ،اسپتالوں میں زیر علاج مریض،چھتوں پر سوئے ہوئے عوام فائرنگ کی آوازوں سے شدید خوف میں مبتلا ہو گئے اور اس آزادی کی خوشی میں کی جانے والی فائرنگ میں لطیف آباد یونٹ نمبرگیارہ کے علاقے ایوب کالونی موتی مسجد کے قریب چھبیس سالہ نوجوان اسدگھڑی کے بارہ بجتے ہی آزادی کی خوشی میں کی جانے والی فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہو گیااورکئی افراد اندھی گولی کا شکار ہوکر زخمی ہوگئے، اس کے علاوہ شہر کی مختلف شاہراہوں پر نوجوان ون وہیلنگ کرتے نظر آئے جس کے باعث بھی سینکڑوں نوجوان زخمی
ہوئے،
کون زمیدار ہے ان واقعوں کا؟
حالانکہ تیرہ اگست کو ہی حیدرآباد کی پولیس نے ایک سیکیورٹی پلان جاری کیا تھا جس کے تحت دو ہزار پولیس اہلکار، دو سو پولیس کمانڈوز سیکیورٹی پر معمور کئے گئے تھے اس کے ساتھ ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں رینجرز کی پینتیس اور پولیس کی بتیس چوکیان قائم کی گئی تھیں پھر کیوں یہ اندھے قاتل اسلحہ لے کر دندناتے رہے اورفائرنگ کی آوازوں سے شہر گونجتا رہا۔
کیا خوشیاں اس طرح منائی جاتی ہیں، کیادنیا میں صرف اکلوتا ملک پاکستان ہی آزاد ہوا ہے،کیا اسپاکستان کے لئے ہمارے سینکڑوں گمنام بزرگوں، نوجوانوں، خواتین، مردوں،بچوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دئے تھے۔ ہمیں سوچنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔

Monday, 30 April 2018

صائمہ جروار لاڑکانہ کی زینب ۔۔۔۔ #SaimaJarwar


صائمہ جروار لاڑکانہ کی زینب ۔۔۔۔


صائمہ لاڑکانہ کی ایک ننھی کلی جو مرجھا گئی ، جسے سنگسار کر نے کے بعد نا حق قتل کر دیا گیا ، کوئی نہیں بولتا اُس کے حق میں ، کوئی نہیں لکھتا
صائمہ کے درندوں جیسے قاتلوں کے خلاف ، نہیں لیتا کوئی سوموٹو ۔۔۔
ارے ظالمو صائمہ جروارکو بھی شہید کہ دو ،دے دو اُس کی ماں کو دلاسے کے جس طرح تم نے زینب کی ماں
کو دلاسے دیئے تھے کہ زینب شہید ہوئی ہے، کر لو جھوٹے وعدے ، آخر کب تک جھوٹ کی لاٹھی پکڑے رکھو گے، کیا قصور تھا اس ننھی پھول جیسی کلی کا کیا قصور تھا اُس کے گھر والوں کا صرف یہ کہ وہ ایک ایسے ملک کے رہائشی ہیں جہاں اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنی صائمہ قتل کر دی گئیں ، نہ جانے کتنی صائمہ سنگسار کی گئیں ،کبھی زینب کے روپ میں کیا تم بھول گئے عمان فاطمہ کو، کیا تمھیں نہیں یاد فوزیہ ، کیا تمھیں نہیں یاداسمہ، تمھیں تو نور فاطمہ اور لائبہ بھی یاد نہیں ہونگی جنہیں سنگسار کرکے صائمہ ہی کی طرح بے دردی سے قتل کر دیا گیا، پچھلے ایک سال کے دوران اس طرح کے بارہ واقعات ہوئے ، ایک ہی عمر کی لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا، کیا کیا گیا اُن واقعات کا کچھ نہیں ۔۔۔ کسی نے بھی کیا خوب کہا ہے یہاں سب بکتا ہے تم دام تو بولو ۔۔
میں پوچھتا ہوں آج بے نظیر کے بلاول سے کہ زینب کے قتل کو پنجاب حکومت کے منہ پر طمانچہ کہا تھا ، صائمہ کا طمانچہ کس کے منہ پر مارو گے،بلاول صاحب صائمہ کا تو تعلق بھی لاڑکانہ سے ہے ، بے نظیر کے لاڑکانہ سے۔۔
صائمہ ایک پھول جیسی بچی نجانے کتنے خواب تھے اُس کی آنکھوں میں کیا کیا سوچا ہو گا اُس کے ماں باپ نے اُس کے لئے، بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں ، گھر مہکتا ہے بچوں سے، نہ جانے کون سے انسان کی شکل میں بھیڑئیے ہیں ، کیسی حوس ہے یہ جو ان معصوم پھولوں کو کچل رہی ہے، ننھی صائمہ کے قتل کے دو زمیدار ہیں ایک وہ ظالم بھیڑئیے جنہوں نے صائمہ کو سنگسار کرکے ناحق قتل کیا دوسرے حکمران جو صائمہ کو سنگسار ہونے سے نہ روک سکے، پاکستان جو اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر بنا تھا، کہاں گیا تمھارا وہ نظریہ، یاد نہیں تمہیں کہ حضرت عمر کے دل کو خوف اُن کا راتوں کو اس ڈر سے گھومنا کہ کوئی بھوکا نہ سوجائے، کہیں کوئی جانور ٹھوکر لگنے سے بھی زخمی نہ ہو جائے، سوال ہو گا تم سے بھی ایک ایک صائمہ کا کہ کیوں نہیں بچا سکے ، ایک ایک کا جواب دینا ہوگا،۔ خدارا اب بھی وقت ہے جاگ جاؤ ، کر لو ٹھوس اقدامات بنا دو کسی قاتل کو پکڑ کر عبرت کا نشان ، دے دو پھانسی اُسے بیچ چوراہے پر ، یہ صائمہ بھی کسی کی بیٹی ہے کسی کا لختِ جگر ہے اس صائمہ کو تو نہ بچاسکے اور نہ جانے کتنی صائمہ ایسی ہیں جنہیں یہ حوس کے پجاری نشانہ بنانا چاہتے ہیں ، بچالو اُنھیں ۔۔۔۔خدارابچالو ۔۔۔۔

Friday, 27 April 2018

حیدرآباد میں کھلے عام فروخت ہوتا مضر صحت آئل



حیدرآباد میں کھلے عام فروخت ہوتا مضر صحت آئل


پاکستان میں اس وقت کئی اقسام کی بیماریوں کا راج ہے ، جس میں بلڈ پریشر، کولیسٹرول، پھیپھڑوں کی بیماری، جگر کی بیماری اور دیگی کئی اقسام کی بیماریا ں ہیں جنہوں نے پاکستانیوں کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے، اگر ان بیماریوں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے صلاح کی جائے تو وہ سب سے پہلے ان
بیماریوں کا سبب مضرِ صحت اشیاء اور باہر کے آلودہ کھانوں کو قرار دیتے ہیں ، اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھر پر کھانا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں ،لیکن جب ان مشوروں پر عمل کرنے کے بعد بھی انسان کی زندگی میں بہتری نہیںآتی تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کے آخر کیا وجہ ہے، جب وہ اس امر پر سوچ و بچار کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مسئلا صرفباہر کے کھانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ گھر کے کھانے کی بھی صورتحال بھی باہر جیسی ہی ہے، کیونکہ وہ سبزی ، دال، چاول ہر چیز کواچھی طرح دھو کر استعمال کرتا ہے ، لیکن جب بات کوکنگ آئل کی آتی ہے تو وہ بغیر کچھ سوچے ایک اچھی اور نامور کمپنی کا کوکنگ آئل استعمال کر لیتا ہے، اور کچھ جعلسازوں اور ناجائز منافع خوروں کی وجہ سے بیماریوں کی طرف کھنچتا چلا آتا ہے۔ حیدرآباد پاکستان کا چھٹا اور صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے،حیدرآباد جیسے شہر میں اس وقت کھلے تیل کا کام عروج پر ہے اور اس وقت حیدرآباد میں کھلا تیل بنانے کے کارخانوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے جس میں سے زیادہ تر کارخانے شہر کے پوشعلاقوں میں واقع ہیں جن میں ٹاور مارکیٹ، ہیرآباد، فقیر کا پڑ، پریٹ آباد اور ٹنڈو ولی محمد قابل ذکر ہیں، اور ان کارخانوں سے یہ مضر صحت آئل تقریباََ پورے سندہ کو سپلائی ہوتا ہے اور یہ کارخانے مشہو ر کمپنیز کا نام اور اُن کمپنیز کے مونوگرام آئل کے ڈبوں میں چھپواکر پورے سندھ میں سپلائی کرتے ہیں اور اس آئل کی فی کلو قیمت 160سے200 روپے تک ہوتی ہے، ملنے والی معلومات کے مطابق یہ کارخانے آئل بنانے کے لئے جانوروں کی آنتیں، اوجھڑی، مرغیوں کی ٹانگیں، اور جانوروں کی ہڈیوں کا استعمال کرتے ہیں، اس دوران جب ایک کارخانے میں کام کرنے
والے مزدور سے پوچھاگیا کہ کیا کبھی کوئی ویجیلنس ٹیم یا پولیس یہاں چھاپہ مارتی ہے تو اُس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ مالک لاکھوں روپے ماہانہ اوپر پہنچاتا ہے تو کونسی ٹیم کونسا چھاپہ، کافی تگ و دو کے بعد جب ایک فرض شناس پولیس والے سے رابطہ کیا تو اُس نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ بات بلکل صحیح ہے کہ اس وقت حیدرآباد میں مضر صحت آئل کے کارخانوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے اور ہر کارخانے کا مالک اپنی حدود میں آنے والے تھانے کو ماہانہ پیسے پہنچاتا ہے ، جو نیچے سے لے کراعلی پولیس حکام تک پہنچتے ہیں۔ جب عام شہریوں سے اس کھلے آئل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ کافی لوگوں نے اس قسم کے کارخانے گھروں میں چھپا کر لگا رکھے ہیں جن میں بیمار
جانوروں کے اعضاء سے آئل تیار کیا جاتا ہے اور اسے ٹین کے ڈبوں میں ایک مشہور کمپنی کا مونو گرام لگا کر مارکیٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے ، اور لوگوں کیلئے یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا اصلی ہی اورکیا نقلی۔

ان منافع خوروں کی ذرا سی لالچ نجانے کتنی معصوم زندگیوں کو تباہ کر دیتیں ہیں اور اس خراب اور مضر صحت آئل کی وجہ سے انسان بے شمار جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں ہیپاٹائیٹس سی، ہیپاٹائیٹس بی، پھیپھڑوں کی بیماری اور نجانے کتنی اوربیماریاں شامل ہیں۔

Sunday, 14 January 2018

Travelogue Sindh University to Sindh Assembly


سندھ اسمبلی کے باہر طلبہ اور اساتزہ کا گروپ فوٹو
سندھ اسمبلی کے باہر طلبہ اور اساتذہ کا گروپ فوٹو

سندھ یونی ورسٹی سے سندھ اسمبلی 

کہتے ہیں کہ صبح کے پہر دیکھے جانے والے خواب اکثر سچے ہوتے ہیں شاید میڈیا کمیونیکیشن کے طالبعلموں کو
سندھ اسمبلی لے جانے کا خواب بھی شعبے کے چیئرمین نے صبح کے وقت ہی دیکھا ہوگا، جو اُن کی محنت
اور جذبے کے تحت تعبیر کو پہنچا اور یہ خواب حقیقت کی شکل اختیار کر گیا، 13مارچ کا دن سندھ یونی ورسٹی کی تاریخ میں سنہری الفاظوں میں یاد رکھا جائے گا کہ اس دن سندھ یونی ورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار کسی شعبے کہ طالبعلموں کی ایک کثیر تعداد نے سندھ اسمبلی کا دورہ کیا، قصہ کچھ یوں ہے کہ سندھ یونی ورسٹی کا میڈیا اینڈ کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ دن بہ دن ترقی کے منازل طے کر رہا ہے اسی تناظر میں شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر بدر سومرو صاحب نے اپنے طالب علموں کو سندھ اسمبلی لے جانے کا ایک پروگرام ترتیب دیا تا کہ طلبہ وہاں جا کر پارلیمانی جرنلزم سے استفادہ حاصل کر سکیں اسی اثناء میں ضروری کاروائی کے بعد 13 مارچ کو سندھ اسمبلی کا پروگرام ترتیب دیا گیا ،تقریباََ 10 بجے سندھ یونی ورسٹی سے طالب علموں کی ایک کثیر تعداد چیئرمین ڈاکٹر بدر سومرو اور دیگر سینئر اساتزہ کی نگرانی میں سندھ یونی ورسٹی کی بلو پوائنٹ میں روانہ ہوئے ، اسمبلی جانے  کی خوشی ہر طالب علم کے چہرے پر خوب عیاں تھی جس کا بر ملا اظہار سفر کے دورن ڈانس اور دیگر طریقوں سے کیا گیا، تقریباََ1بجے سندھ اسمبلی پہنچے، سب طلبہ کو اُن کے انٹری کارڈ دیئے گئے سخت چیکنگ کے بعد اسمبلی کے اندر جانے کی اجازت ملی جنہیں آج تک صرف ٹیلی وزن اسکرین پر دیکھا تھا آج پہلی بار سامنے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا، خوشی کا اُس وقت ٹھکانہ نہیں رہا جب دورانِ اجلاس اسپیکر سندھ اسمبلی جناب آغا سراج خان دُرانی صاحب نے ہمارے ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین اور دیگر اساتذہ کا نام لے کر ہمیں ویلکم کیا اس موقع پر دیگر تمام میمبرانِ اسمبلی نے بھی ہاتھ ہلا کر ہمیں ویلکم کیا یہ ایسا موقع تھا جو کہ بھولے نہیں بھولے گا، تمام طالب علموں نے ان حسین لمحات کو اپنے موبائل کی آنکھوں میں قید کیا، سندھ اسمبلی کا سیشن ختم ہو نے کے بعد ہم سب ڈاکٹر بدر سومرو صاحب کے ساتھ سیکریٹری سندھ اسمبلی کے کمرے میں گئے جہاں اُنھیں ڈپارٹمنٹ کی شیلڈ ، شعور میگزین اور روشنی اخبار پیش کیا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ روشنی اخباراور شعور میگزین پاکستان کا وہ واحد اخباراور میگزین ہے جو TRILINGUAL یعنی   تین زبانوں میں نکلتا ہے جسے سیکریٹری صاحب نے خوب سراہا اس کے بعد طلبہ نے اسمبلی کے باہرپریس اراکین کے ساتھ وقت گزارا اور پارلیمانی جر نلزم کے حوالے سے معلومات اور اُن کے تجربے سے استفادہ کیا۔
سفر یہیں ختم نہیں ہوا سندھ اسمبلی کے بعد تمام طلبہ نے آرٹس کاؤنسل کراچی کا رُخ کیا جہاں ڈاکٹر ایوب شیخ اور کراچی آرٹس کاؤنسل کے صدر احمد شاہ صاحب کی طرف سے طلبہ اور اساتذہ کے اعزاز میں ایک پُر وقار عشائیہ دیا گیا ، جہاں  پر آرٹس کاؤنسل کے صدر احمد شاہ صاحب نے اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصے پہلے کراچی یونی  ورسٹی کا ایک وفد آرٹس کاؤنسل آیا تھا جس میں تقریباََ طالبات نے حجاب کیا ہوا تھا پر آج یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سندہ یونی  یورسٹی میں حقیقت اس کے بر عکس ہے اور یہاں کراچی یونی ورسٹی سے زیادہ شعور ہے، اُن کا مزید کہنا تھا کہ آرٹس کاؤنسل کراچی کے دروازے میڈیا کمیونیکیشن کے طالب علموں کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں ، آرٹس کاؤنسل کے عشائیے میں میڈیا  کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے ایک سابق استاد ڈاکٹر ہر بخش مکھیجانی نے بھی شرکت کی جنھیں طلبہ اپنے درمیان دیکھ کر پھولے نہیں سمائے اور تالیوں کی بھر پور گونج میں اُن کا استقبال کیا۔
اسکے بعد طلبہ نے کراچی پریس کلب کا رُخ کیا جہاں ایک سیشن میں شرکت کی اسکے بعد مشہور صحافی اورکالم نویس مظہر عباس  اور کراچی پریس کلب کے صدر اور دیگر عہدیداران کی طرف سے ایک ہائی ٹی سیشن کا انتظام کیا گیا جہاں پر تمام عہدیداران بشمول مظہر عباس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنی تیخی باتوں سے حاضرین کو خوب لطف اندوز کیا، اس موقع پر طالب علموں کو بھی بولنے کا موقع دیا گیا اور سوال و جوابات کا سیشن ہوا۔
کراچی پریس کلب کے دورے کے بعد اگلا پڑاؤ سندھ ٹی وی پر ڈالا گیا جہاں پر ریکارڈنگ، لائیو پروگرامنگ، لائیو نیوز ، ایڈیٹنگ اور دیگر طریقوں کے بارے میں خوب معلومات حاصل کی گئیں، ہر طالب علم کو سندھ ٹی وی کے  ہر سیکشن کا دورہ کرایا گیا اور بھر پور معلوموت فراہم کی گئیں۔
بے شک یہ سفر زندگی کا ایک بہترین سفر تھا جو شائد کبھی نہیں بھول پائینگے۔

Wednesday, 10 January 2018

اور زینب ہار گئی


اور زینب ہار گئی۔۔۔۔


زینب کو بھی شہید کہ دو ،دے دو اُس کی ماں کو دلاسے کے زینب شہید ہوئی ہے، کر لو جھوٹے وعدے ، لے لو ایک اور نوٹس، آخر کب تک جھوٹ کی لاٹھی پکڑے رکھو گے، کیا قصور تھا زینب کا کیا قصور تھا اُس کے گھر والوں کا صرف یہ کہ وہ قصور کی رہائشی ہے جہاں اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنی زینب قتل کر دی گئیں ، نہ جانب کتنی زینب سنگسار کی گئیں ، کیا تمھیں نہیں یادعمان فاطمہ، کیا تمھیں نہیں یاد فوزیہ ، کیا تمھیں نہیں یاداسمہ، تمھیں تو نور فاطمہ اور لائبہ بھی یاد نہیں ہونگی جو اس ہی شہر کی رہائشی تھیں اور سنگسار کرکے اسی بے دردی سے قتل کر دی گئیں ، ایک سال کے دوران اس طرح کے بارہ واقعات ہوئے ، ایک ہی عمر کی لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا،اسی شہر میں ہوئے نوٹس پر نوٹس لئے گئے، تین ڈی پی او بدلے گئے پر کیا ہوا کچھ نہیں ۔۔۔ کسی نے بھی کیا خوب کہا ہے یہاں سب بکتا ہے تم دام تو بولو ۔۔
زینب ایک پھول جیسی بچی نجانے کتنے خواب تھے اُس کی آنکھوں میں کیا کیا سوچا ہو گا اُس کے ماں باپ نے اُس کے لئے، بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں ، گھر مہکتا ہے بچوں سے، نہ جانے کون سے انسان کی شکل میں بھیڑئیے ہیں ، کیسی حوس ہے یہ جو ان معصوم پھولوں کو کچل رہی ہے، زینب کے قتل کے دو زمیدار ہیں ایک وہ ظالم بھیڑئیے جنہوں نے زینب کو قتل کیا دوسرے تم ظالم حکمران جو زینب کو سنگسار ہونے سے نہ روک سکے، پاکستان جو اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر بنا تھا، کہاں گیا تمھارا وہ نظریہ، یاد نہیں تمہیں کہ حضرت عمر کے دل کو خوف اُن کا راتوں کو اس ڈر سے گھومنا کہ کوئی بھوکا نہ سوجائے، کہیں کوئی جانور ٹھوکر لگنے سے بھی زخمی نہ ہو جائے، سوال ہو گا تم سے بھی ایک ایک زینب کا کیوں نہیں بچا سکے زینب کو ، ایک ایک کا جواب دینا ہوگا، خدارا اب بھی وقت ہے جاگ جاؤ اس زینب کو تو نہ بچاسکے اور نہ جانے کتنی زینب ایسی ہیں جنہیں یہ حوس کے پجاری نشانہ بنانا چاہتے ہیں ، بچالو اُنھیں ۔۔۔۔

Tuesday, 2 January 2018

Thank You Trump


شکریہ ٹرمپ (ایک معصومانہ سوال؟ ۔۔۔


ٹرمپ صاحب جسے شاید تقریباََ پوری دنیا ہی غلط گردانتی ہے پر آج میں سلام پیش کرتا ہوں ٹرمپ صاحب کوشکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُن کی ایک ٹوئیٹ نے برسوں سے سوئی اور غلام بنی ہوئی قوم کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے، جی ہاں یہاں بات ہو رہی ہے مسلم دنیا کے واحد ایٹمی پاور ملک پاکستان کی جو ایک طویل عرصے تک ایسے ملک کا غلام بنا رہا جس نے اُسے ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا یہاں تک کہ کئی مواقع پر تو ٹھوکر مار کر گرانے کی بھی کوشش کی اور یہ کوششیں مختلف صورتحال میں ابھی تک جاری ہیں اور پاکستان جیسا ایٹمی پاور رکھنے والا ملک سب کچھ سمجھنے کہ باوجود با خوشی غلامی کرتا رہا حلانکہ شمالی کوریا جیسا ایک ڈھائی انچ کا ملک امریکہ کے ناک میں دم کر کے رکھتا ہے اور پاکستان اُس کے ہر ڈومور کے مطالبے پر سر تسلیم خم کر دیتا ہے، اب وقت ہے کہ حکمران اور قوم جاگ جائے ، اب وقت ہے کہ کشکول توڑ دیا جائے، یہی امریکہ ہے کہ جس کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر کسی اور ملک کی جنگ ہم اپنے ملک میں کھینچ لائے ہزاروں فوجی ، بے قصور بچے ،بوڑھے، خواتین، مرد اور نہ جانے کتنی انمول شخصیات اس خانہ جنگی کا شکار ہو گئے، اور ہم یہ سوچ کر حقیقت سے عاری ہو جاتے ہیں کہ سب شہید ہو گئے ، کیا یہ شہادت ہے؟شہادت کہتے کسے ہیں؟صاحب جی شہادت لفظ دل کو بہلانے کے لئے تو بہت اچھا ہے پر جب آنکھوں پر پڑے پردے ہٹا دئیے جائیں تو لگ پتا جا تا ہے کوئی ہے ہمت والا توجھانک کر دیکھے پشاور اے پی ایس اسکول میں ہونے والی دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے پھولوں جیسے معصوم بچوں کے والدین کی آنکھوں میں ۔۔۔ 
کہ ایک ہی سوال نظر آئے گا کہ اُن کے بچے اسکول گئے تھے یا بارڈر پر؟ پڑھنے گئے تھے یا جنگ لڑنے؟ کوئی پوچھے سہون شریف دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کہ لواحقین سے کہ اُن کے پیارے سہون شریف اپنے قلبی سکون کے لئے گئے تھے یا ٹکڑوں میں کٹ جانے؟ کوئی پوچھے داتا دربار، نشتر پارک، لیاقت باغ، کارساز میں ہونے والے دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے۔۔۔۔ 
چلو مان لیتے ہیں کہ یہ سب شہادتیں تھیں تو لاہور یوحناآباد میں جو معصوم لوگ جاں بحق ہوئے کیا وہ بھی شہید تھے؟ کیوں کہ میرے نظرئیے کے مطابق تو شہید صرف مسلمان ہی ہوتا ہے تو ان معصوم لوگوں کے لواحقین دل کو بہلانے کے لئے کونسا لفظ استعمال کریں؟ یہ تو صرٖ ف چند باتیں ہیں مسلم دنیا کے واحد ایٹمی پاور ملک کی تاریخ تو ایسے واقعوں سے بھری پڑی ہے ، یہ سب اُس ہی خانہ جنگی کا نتیجہ ہے کہ جس میں پاکستانی قوم بنا سوچے سمجھے ایک طویل عرصے تک پھنسی رہی، اور اب ایک ٹوئیٹ میں سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں ، اب وقت ہے فیصلے کرنے کا ، کیا ہوگا ملک کی معیشت تباہ ہو گی؟ دنیا بھر میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اقبال نے شاید ایسے ہی موقعوں کے لئے کہا تھا کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔