Friday, 27 April 2018

حیدرآباد میں کھلے عام فروخت ہوتا مضر صحت آئل



حیدرآباد میں کھلے عام فروخت ہوتا مضر صحت آئل


پاکستان میں اس وقت کئی اقسام کی بیماریوں کا راج ہے ، جس میں بلڈ پریشر، کولیسٹرول، پھیپھڑوں کی بیماری، جگر کی بیماری اور دیگی کئی اقسام کی بیماریا ں ہیں جنہوں نے پاکستانیوں کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے، اگر ان بیماریوں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے صلاح کی جائے تو وہ سب سے پہلے ان
بیماریوں کا سبب مضرِ صحت اشیاء اور باہر کے آلودہ کھانوں کو قرار دیتے ہیں ، اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھر پر کھانا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں ،لیکن جب ان مشوروں پر عمل کرنے کے بعد بھی انسان کی زندگی میں بہتری نہیںآتی تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کے آخر کیا وجہ ہے، جب وہ اس امر پر سوچ و بچار کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مسئلا صرفباہر کے کھانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ گھر کے کھانے کی بھی صورتحال بھی باہر جیسی ہی ہے، کیونکہ وہ سبزی ، دال، چاول ہر چیز کواچھی طرح دھو کر استعمال کرتا ہے ، لیکن جب بات کوکنگ آئل کی آتی ہے تو وہ بغیر کچھ سوچے ایک اچھی اور نامور کمپنی کا کوکنگ آئل استعمال کر لیتا ہے، اور کچھ جعلسازوں اور ناجائز منافع خوروں کی وجہ سے بیماریوں کی طرف کھنچتا چلا آتا ہے۔ حیدرآباد پاکستان کا چھٹا اور صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے،حیدرآباد جیسے شہر میں اس وقت کھلے تیل کا کام عروج پر ہے اور اس وقت حیدرآباد میں کھلا تیل بنانے کے کارخانوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے جس میں سے زیادہ تر کارخانے شہر کے پوشعلاقوں میں واقع ہیں جن میں ٹاور مارکیٹ، ہیرآباد، فقیر کا پڑ، پریٹ آباد اور ٹنڈو ولی محمد قابل ذکر ہیں، اور ان کارخانوں سے یہ مضر صحت آئل تقریباََ پورے سندہ کو سپلائی ہوتا ہے اور یہ کارخانے مشہو ر کمپنیز کا نام اور اُن کمپنیز کے مونوگرام آئل کے ڈبوں میں چھپواکر پورے سندھ میں سپلائی کرتے ہیں اور اس آئل کی فی کلو قیمت 160سے200 روپے تک ہوتی ہے، ملنے والی معلومات کے مطابق یہ کارخانے آئل بنانے کے لئے جانوروں کی آنتیں، اوجھڑی، مرغیوں کی ٹانگیں، اور جانوروں کی ہڈیوں کا استعمال کرتے ہیں، اس دوران جب ایک کارخانے میں کام کرنے
والے مزدور سے پوچھاگیا کہ کیا کبھی کوئی ویجیلنس ٹیم یا پولیس یہاں چھاپہ مارتی ہے تو اُس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ مالک لاکھوں روپے ماہانہ اوپر پہنچاتا ہے تو کونسی ٹیم کونسا چھاپہ، کافی تگ و دو کے بعد جب ایک فرض شناس پولیس والے سے رابطہ کیا تو اُس نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ بات بلکل صحیح ہے کہ اس وقت حیدرآباد میں مضر صحت آئل کے کارخانوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے اور ہر کارخانے کا مالک اپنی حدود میں آنے والے تھانے کو ماہانہ پیسے پہنچاتا ہے ، جو نیچے سے لے کراعلی پولیس حکام تک پہنچتے ہیں۔ جب عام شہریوں سے اس کھلے آئل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ کافی لوگوں نے اس قسم کے کارخانے گھروں میں چھپا کر لگا رکھے ہیں جن میں بیمار
جانوروں کے اعضاء سے آئل تیار کیا جاتا ہے اور اسے ٹین کے ڈبوں میں ایک مشہور کمپنی کا مونو گرام لگا کر مارکیٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے ، اور لوگوں کیلئے یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا اصلی ہی اورکیا نقلی۔

ان منافع خوروں کی ذرا سی لالچ نجانے کتنی معصوم زندگیوں کو تباہ کر دیتیں ہیں اور اس خراب اور مضر صحت آئل کی وجہ سے انسان بے شمار جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں ہیپاٹائیٹس سی، ہیپاٹائیٹس بی، پھیپھڑوں کی بیماری اور نجانے کتنی اوربیماریاں شامل ہیں۔

No comments:

Post a Comment