( پاکستان لیجنڈ کانفرنس ( سکھر یاترا
ویسے تو نوجوانوں کے لیے بہت سی جگہوں پر مختلف پروگراموں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے پر سکھر میں بارہ، تیرہ اور چودہ اکتوبر کوہونے والی تین روزہ پاکستان لیجنڈ کانفرنس کی اپنی ہی بات تھی۔اس کانفرنس میں پاکستان بھر سے اکہتر نوجوانوں نے اکیس شہروں کی نمائندگی کی،سکھر کی آئی بی اے یونی ورسٹی سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی پاکستان لیجنڈ کانفرنس میں پاکستان بھر کے مشہور مقررین نے اپنی تقریروں سے ملک بھر سے آئے ہوئے نوجوانوں کا خون گرمائے رکھا۔اکیس شہروں سے آئے ہوئے اکہتر نوجوان جو اپنے اپنے شعبے میں
نمایاں کام سر انجام دے رہے ہیں ان میں ایک یہ قلم قار وارث بھی تھا۔
نمایاں کام سر انجام دے رہے ہیں ان میں ایک یہ قلم قار وارث بھی تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ سکھر میں پاکستان لیجنڈ کانفرنس کے نام سے ایک تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں شامل ہونے کے لیے ملک بھر سے درخواستیں موصول کی گئیں اور پھر ان وصول کی گئی درخواستوں میں سے اکہتر خوش نصیب نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے منتخب کیا گیا۔
بارہ اکتوبر جمعہ سے شروع ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لئے یہ قلم کار جمعرات گیارہ اکتوبر کی رات بارہ بجے بذریعہ ٹرین سکھر روانہ ہوا۔ ایک قابل ذکر بات یہاں بتاتا چلوں کہ کانفرنس کے لیے جانے والا یہ قلم کار سکھر میں ہونی والی کانفرنس کے حوالے سے کسی سے کبھی باضابطہ طور پر نہیں ملا تھا صرف فون پر رابطہ تھا تو دل میں ایک عجیب سی کشمکش تھی کہ جایا جائے یا نہیں کیونکہ اس سے پہلے کبھی سکھر یاترا نصیب نہیں ہوئی تھی سو فیصلہ کرنے کی عادت ہماری یہاں بھی دوسری سوچوں پر حاوی ہوگئی اور بالآخر جانے کی ٹھان لی،تو رات ساڑھے پانچ بجے روہڑی اسٹیشن پر اترنا ہوا اب ایک اور بات کہ ہمیں یہ پتہ وہاں جا کر چلا کہ سکھر اور روہڑی دو اسٹیشن ہیں اور جس جگہ اس قلم کار کو پہنچنا ہے وہ روہڑی اسٹیشن سے چالیس منٹ کے فاصلے پر ہے ،پر جیسے تیسے کر کے اپنے مقررہ ہوٹل پر پہنچے تو وہاں اور ہی صورتحال تھی کیونکہ کانفرنس کے شرکاء کو گیارہ اکتوبر شام پانچ بجے تک ہوٹل پہنچنے کا کہا گیا تھا پر جب ہم پہنچے توصبح کے چھ بج رہے تھے اور کانفرنس کی انتظامیہ خواب خرگوش میں گم تھی ، پر ہمارے فون کرنے کے بعد ایک خوش شکل خوبصورت محترمہ نے ہمارے لیئے ہوٹل میں کمرے کاانتظام کر ہی دیا (یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پھرتین روز تک اس قلم کار کی نظریں اس خوش شکل محترمہ پر ہی مرکوز رہیں) خیر کمرے میں پہنچے اور ابھی سوئے ہی تھے کہ کوئی تیز تیز دروازہ پیٹنے لگا،اس کی کافی محنت کے بعد دروازہ کھولا تو ہمیں سامنے کھڑی ایک محترمہ نے جھنجلا کر کہا کہ اٹھ جائیں جناب صرف آپ کا انتظار ہے باقی سب تیار ہیں ہمیں آئی بی اے یونی ورسٹی کے لئے نکلنا ہے ،خیر بھاگم بھاگ تیار ہوئے اور ناشتے کے لئے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں پہنچے ایک سپ چائے کا لیا اور دیگر نوجوانوں کے ساتھ آئی بی اے یونی ورسٹی روانہ ہو گئے، یہاں تک کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی صرف ان دو لڑکوں کے علاوہ جو ہمارے ساتھ کمرا شیئر کر رہے تھے،خیر یونی ورسٹی پہنچ کر سیشن کے لیے مقررہ آڈیٹوریم پہنچے جہاں پر مختلف سیشن میں مشہور مقررین نے حوصلہ افزاء تقریریں کیں اور مختلف سرگرمیاں کروائیں، اس کے بعدوہاں سے ہم سب سے پہلے سکھر بیراج گئے پھر سعد بھیلو میں کشتی رانی کی سیر کی،
سکھر کے مشہور سات بہنوں کا مزار دیکھا، قینچی پل کی سیر بھی کی وہاں سے شاہ نجف روہڑی بھی گئے ، سادہ لفظوں میں یہ کہ ایک خوبصورت اور تھکاوٹ بھرا دن گزار کر ہوٹل پہنچے تو بتایا گیا کہ ایک اور پروگرام میں جانا ہے پر اس قلم کار سمیت دیگر نے بھی صاف انکار کردیا پر جب بتایا گیا کہ ڈی جے پارٹی ہے تو
ٹیم جھولے لعل کے ہمراہ |
دوسرے دن پھر صبح سات بجے دروازہ پیٹا گیا،سکھر ہوٹل میں ناشتہ کیا اور یہاں سے خیر پورمیرس کی جانب روانہ ہوگئے،پیر ابھن شاہ کے مزار پہنچے جہاں ایک عجیب ہی سکون اور کشش تھی۔پھر کوٹ ڈیجی قلعہ گئے اور قلعے میں ہی ایکو ساؤنڈ کی موجودگی میں خوب محفل جمائی اور پورے قلعے کی سیر کی، یہاں سے سچل سرمست کے مزار پر روانہ ہوئے جہاں پر سچل کے مزار پر موجود ملنگوں کے ساتھ خوب دھمالیں ڈالیں۔ لگ بھگ رات آٹھ بجے تک واپس سکھر ہوٹل پہنچے تو یہاں ثقافتی پروگرام کی تیاریاں مکمل تھیں،جس کے لیے پاکستان بھر سے آئے ہوئے نوجوانوں نے اپنی اپنی ثقافت کے حساب سے لباس زیب تن کئے اس پرواگرام میں بھی خوب لطف اندوز ہوئے ،یہاں بھی مقررین نے حوصلہ افزاء سیشن دئے ، آخر میں لسی کی آمد نے تو محفل میں چار چاند لگا دئے اور اس قلم
کار نے تو لسی کے بھر بھر کے دس سے بارہ گلاس پیئے۔
قلم کار شہید بھتو کے مزار پر |
تیسرے اور آخری روز کا سفر صبح دس بجے لاڑکانہ روانگی سے شروع ہوا جس میں ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کر کے ہم اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گڑھی خدا بخش میں شہید بھٹو کے مزارپر پہنچے تو مزار کی خوبصورت عمارت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ مزار میں بی بی شہید اور بھٹو شہید سمیت دیگر شہداء کی قبروب پر فاتحہ خوانی کی، بعد ازاں وہاں سے موہن جو دڑو روانہ ہوئے۔
موہن جودڑو جسے جب بھی بیس کے نوٹ پر دیکھتے تھے تو وہاں جانے کی خواہش ہوتی تھی خیر ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب دیکھنے کا شوق ہماراپورا ہو ہی گیا اور ہم اس تین روزہ کانفرنس کے آخری روز موہن جو دڑو پہنچ ہی گئے،میوزیم کا دورہ کیا، دڑے کی سیر کی گائیڈ سے ساری داستان سنی تصویریں بنوائیں خوب لطف اندوز ہوئے۔ یہاں سے شروع ہونا تھا اب واپسی کا سفر دو گھنٹے کا سفر طے کر کے واپس سکھر پہنچے یہاں پاکستان لیجنڈ کانفرنس کی آخری تقریب
جس میں سرٹیفیکٹس تقسیم کئے گئے میں شرکت کی۔
دوستوں کے ہمراہ واپس حیدراآباد جاتے ہوئے |
پھر شروع ہوا ایک مسئلہ کہ واپس کیسے جایا جائے بس اڈے سے پتہ کروایا تو سیٹ ملنے کی امید نظر نہ آئی خیر حیدرآباد سے ہی آئے ہوئے اپنے د یگر تین ساتھیوں کے ہمراہ جن سے سکھر سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے ریلوے اسٹیشن کی جانب روانہ ہو گئے جہاں پر پہنچ کر ہمیں کسی ٹرین میں کوئی ٹکٹ نہیں ملا تو خیر خیر کرکے فیصلہ کیا کہ بغیر ٹکٹ چلتے ہیں ہمیشہ سنتے آئے ہیں کہ ٹرین کے اندر کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے دیکھ لیں گے خیر خیبر میل آئی اور اس میں ایک پولیس والے سے بات کی تو اس نے سیٹیں دلوادیں پر سیٹیں کچھ یوں ملیں کہ ہم چاروں الگ ہوگئے
تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹرین کے ڈبوں کے گیٹ پر چادر بچھا کر سفر کرتے ہیں اس طرح ہمارا یہ سکھر سے حیدرآباد ساڑھے چار
گھنٹوں کا سفر بہت ہی شاندار گزرا۔
اب بات کریں پاکستان لیجنڈ کانفرنس کی تو اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں، آسان لفظوں میں لکھوں تو گیا اکیلا تھا ساتھ دوستوں کی فوج لایا ہوں۔
ایک اور قابل ذکر بات اس تین روزہ سفر کی یہ کہ ہم نے ایک نعرہ سیکھا جو ہمیشہ یاد رہے گا ،کیونکہ اس سے بہت یادیں وابستہ ہیں ۔
لما ٹینگ ٹینگ، لما ٹانگ ٹانگ، لما ٹینگ ٹپک کے ٹھاہ۔
ٹپک کے ٹھاہ۔
ٹپک کے ٹھاہ۔
قلم کار: وارث بن اعظم
No comments:
Post a Comment