Saturday, 15 April 2017

Dispute b/w Sindh and Federal Govt...!!



وارث بن اعظم
2K14/MC/102

بلاگ: سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان تنازعہ

سندھ میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں ہے اور وفاق میں مسلم لیگ  نواز کی حکومت ہے، یہ دونوں جماعتیں ہمیشہ سے ہی ایک دوسرے کی شدید مخالف  رہی ہیں ، مسلم لیگ نواز کا سندھ میں ووٹ بینک بلکل نہ ہو نے کے برابر ہے ،اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کا پنجاب میں کافی اثر و رُسوخ ہے ، جسکی وجہ سے وفاقی حکومت کا زیادہ تر دھیان پنجاب تک ہی محدود رہتا ہے، اسی بناء پر وفاقی حکومت کا سندھ حکومت سے روابط ہمیشہ خراب رہے ہیں، اور سندھ حکومت کو وفاق سے ہمیشہ شکایت ہی رہتی ہے کہ وفاق سندھ کے ساتھ نا انصافی کرتا ہے، سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ جس میں صوبوں کو اُن کے وسائل کے مطابق حصہ دیا جاتا ہے، جس میں زیادہ تر ٹیکس سندھ سے جمع ہوتا ہے ،اور ایک اندازے کے مطابق پورے   پاکستان کے روینیو کا  ستر فی صد کراچی سے جمع ہوتا ہے، سندھ کو اُس کا صحیح حق نہیں دیا جاتا، اسی طرح پانی کی تقسیم میں بھی سندھ سے زیادتی کی جاتی ہے اور سندھ حکومت کے مطابق سندھ کے پانی کا ایک بڑا حصہ پنجاب کو دے دیا جاتا ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے، آجکل سندھ میں گیس فراہمی پر وفاق سے حالات کشیدہ ہیں ، واقعہ کچھ یوں ہے کہ سندھ حکومت نے نوری آباد کے قریب ایک بجلی کا پاور پلانٹ لگایا ہے اور گیس کمپنی سے اس ضمن میں بات بھی ہو گئی تھی پر اب پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد سوئی گیس کمپنی نے گیس کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے،جس پر وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت کو کہا ہے کہ سندھ کو مکمل گیس فراہم کی جائے،  سندھ پورے ملک میں گیس کی پیداوار کا 70 فی صد پیدا کرتا ہے ، اور آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت جس صوبے سے قدرتی وسائل نکلتے ہوں اس صوبے کا اس پر پہلا حق ہے، اور اگر سندہ کو اس کا حق نہیں دیا گیا تو سندھ سے جانے والی گیس پائپ لائن بند کر دینگے اور سوئی سدرن گیس کمپنی کو اپنی تحویل میں لے لیں گے، آجکل گیس کے معاملے پر سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان شدید تناؤ ہے، دونوں حکومتی وزراء کی جانب سے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تو یہ تک کہا ہے کہ وزیر اعلی سندھ میں گیس بند کرنے کی طاقت ہی نہیں جس پر مراد علی شاہ نے سوئی سدرن کمپنی کو ایک ہفتہ کا وقت دیا ہے،سندھ حکومت کی طرف سے ہمیشہ وفاقی حکومت کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وفاق کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں میں سندھ کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور وفاقی حکومت کا تقریباََ بجٹ پنجاب پر خرچ کیا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے وفاق کی طرف سے سندھ میں کوئی میگا پروجیکٹ تکمیل کے مراحل تک نہیں پہنچا ہے، ایک موٹر وے حیدرآباد سے کراچی ہے وہ بھی سُپر ہائی وے کو صرف پالش کر کے موٹر وے کا نام دے دیا گیا اور اس پر بھاری ٹول ٹیکس لگا دیا گیا ہے، حالانکہ یہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا ہے پر دو مہینے پہلے وزیر اعظم کی طرف سے اسکا افتتاح کر دیا گیا اس پر بھی سندھ حکومت کے شدید تحفظات ہیں، وزیر اعطم پاکستان میاں نواز شریف پچھلے دو مہینوں سے سندھ کے لگاتر دورے کر رہے ہیں جس میں مختلف ترقیاتی اسکیموں کو اعلان بھی کیا جا رہا ہے، جس میں حیدرآباد میں یونی ورسٹی اور انٹر نیشنل ایئر پورٹ کا قیام، ٹھٹہ کے تمام دیہاتوں میں بجلی اور گیس کی فراہمی ، جیکب آباد، ٹھٹہ، حیدرآباد میں ہیلتھ کارڈ اسکیم کا اعلان ، اسی طرح کراچی میں بھی بے تحاشہ ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کیا گیا، 
سندھ حکومت نے ان اعلانات پر بھی وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ، سندھحکومت کے مطابق یہ تمام اعلانات جھوٹ پر مبنی ہیں اور میاں نواز شریف صاحب کو اب حکومت میں آنے کے چار سال بعد سندھ کیوں یاد آیا، اور سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن سے ایک سال قبل ایسے اعلانات کر کے وہ سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں،

Tuesday, 28 March 2017

Government College Phuleli & Hyderabad Expo Center


گورنمنٹ کالج حیدرآباد کا اندرونی منظر
ایکسپو سینٹر حیدرآباد میں آخری نمائش


وارث بن اعظم
2K14/MC/102
بلاگ: ٹھنڈی ہواؤں کا شہر حیدرآباد

سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جو کہ اپنی ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے مشہور ہے، حیدرآباد کا ذکر ہو اور گورنمنٹ کالج پھلیلی کی بات نہ کی جائے تو یہ حیدرآباد کے ساتھ زیادتی ہو گی، گورنمنٹ کالج پھلیلی اکتوبرمیں اپنی تعمیر کے 100 سال مکمل کرنے والا ہے، اس کالج نے کئی نامور سیاستدان، انجینئر، استاد اور ماہرِ معاشیات پیدا کئے ، اس کالج کی بنیاد مس عینی بیسنٹ نے یکم اکتوبر 1917 کو سندھ نیشنل آرٹس کالج کے نام سے رکھی ، 1947 میں پاک بھارت تقسیم کے وقت یہ کالج بند ہو گیا تھا مگر حکومت پاکستان نے21جون1948میں اسے پھر سے کھولا اور نام گورنمنٹ کالج حیدرآباد رکھا ، یہ کالج قدیمی نہر پھلیلی کے نز دیک واقع ہے تو یوں یہ کالج گورنمنٹ کالج پھلیلی کہلانے لگا،کالج میں 21مختلف شعبے ہیں اسکے علاوہ ایک بڑا کرکٹ گراؤنڈ، بیڈمنٹن کورٹ، ٹیبل ٹینس روم، والی بال کھیلنے کی جگہ اور وسیع سر سبز گارڈن ہے، اس کالج کے طلبہ میں کئی ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جنہوں نے آگے چل کر بہت شہرت حاصل کی اور اپنے مادرِ علمی کا نام روشن کیا جن میں سابقہ وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف،سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین، مشہورِ زمانہ وائس چانسلر سندھ یونی ورسٹی مظہر الحق صدیقی، اداکارمحمد علی اور دیگر افراد شامل ہیں ، راجہ پرویز اشرف تو اپنی وزارت کے دور میں اپنی مادر علمی کا دورہ بھی کر چکے ہیں،پرنسپل ، پروفیسرز ، ایسوسی ایٹ پروفیسرز ، اساتزہ کی تعداد پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت ان کی تعداد117کے قریب ہے اس کے علاوہ 70کے قریب دیگر اسٹاف جس میں کلرک، مالی، قاصد، نائب قاصد،لائیبریرین، کار پینٹر، سیکیورٹی گارد وغیرہ ہیں وہ شامل ہیں۔

حیدرآباد ایکسپو سینٹر نورانی بستی، پریٹ آباد میں واقع ہے، حیدرآباد ایکسپو سینٹر کی بنیاد2008میں سابق گورنر سندھ عشرت العباد نے رکھی، اپنی تعمیر کے بعد ایکسپو سینٹر میں کئی تاریخی نمائشوں کا اہتمام کیا گیا جن میں ناسہ انٹر نیشنل اور حیدرآباد چیمبر آف کامرس کی طرف سے لگائی جانے والی نمائش قابلِ ذکر ہے ، ایکسپو سینٹرایک وقت میں لوگوں کی آمدورفت کی وجہ سے مصروف ترین جگہ بن گیا تھا، پھر صوبائی اور ضلعی حکومت کی چپقلش کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ہے، اور اب ایکسپو سینٹر حیدرآباد ماضی کی علامت بن کر رہ گیا ہے، حکومت اور ضلعی حکام  سے گزارش ہے کہ اس پر نظرِ کرم ڈالی جائے تاکہ تاریخ میں ایکسپو سینٹر حیدرآباد ایک بار پھر اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکے۔

Sunday, 19 March 2017

Hyderabad Issues

وارث بن اعظم
2K14/MC/102
بلاگ: مسائل میں گھِرا حیدرآباد


حیدرآباد پاکستان کا چھٹا اور صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ، اسکی آبادی ایک 
اندازے کے مطابق3.4ملین ہے اور گاہے بگاہے اس میں تیزی سے 
اضافہ ہوتا جارہا ہے، شہر حیدرآباد میں سہولتوں کا ویسے ہی فقدان ہے اور
آبادی بڑھنے سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اگر اندرونِ شہر کی بات
کی جائے تو اندرونِ شہر صرف ایک بڑا سرکاری ہسپتال ہے جو صوبائی اور
ضلعی حکومت کی چپقلش کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہے، اسکے ساتھ ساتھ
شہر حیدرآباد میں سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی 
گاڑیوں کی تعداد کی وجہ سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہے، ٹریفک کا
مسئلہ پہلے تو مصروف شاہراؤں تک محدود تھا پر اب یہ صورتحال چھوٹی ہو
یا بڑی ہر شاہراہ تک پہنچ گیا ہے، اس حوالے سے شہر حیدرآباد میں 
انکروچمنٹ کے کام کا آغاز کیا گیا تھا شروع شروع میں تو بہت تیزی 
سے کام کیا گیا مگر پھر وہی روایتی بات کہ جب تک غریبوں کی دکانوں،
پتھاروں ، گھروں کو انکروچمنٹ کی نظر کرا جاتا رہا تو سب اچھا تھا مگر جب
انکروچمنٹ والوں کا ہاتھ با اثر لوگوں تک پہنچا تو اس کام کو اثر و رسوخ 
استعمال کر کے رکوادیا گیا۔اسکے علاوہ حیدرآباد میں پانی کا بھی بہت مسئلہ
ہے اول تو پانی آتا نہیں ہے اور اگر آتا بھی ہے تو رات کے کسی پہر عوام
جاگ جاگ کر پانی بھرتی ہے اور وہ پانی بھی بدبو زدہ ہوتا ہے یعنی پینا تو 
درکنار اگر کپڑے بھی دھو لئے جائیں تو کپڑوں میں سے بد بو نہیں جاتی،
یہی وجہ ہے کہ آجکل حیدرآباد میں سب سے زیادہ جو کاروبار عروج 
پر ہے اُس میں پانی کا کام ہے اور حیدرآباد کی عوام خرید کر پانی پینے 
پر مجبور ہے،
کسی دور میں حیدرآباد خوبصورت شہروں میں شمار ہو تا تھا ، مگر اب
نجانے اس کی خوبصورتی کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے، صفائی 
ستھرائی کی حالت انتہائی خراب ہے جب کہ پہلے اس کی ذمہ داری
صوبائی حکومت پر ڈال دی جاتی تھی کی بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ
سے شہر مسائل کا شکار ہے، مگر اب چونکہ بلدیاتی الیکشن ہو ئے بھی تقریباََ
دو سال گزرنے کو ہیں اور مسائل حل تو کیا اُس سے بھی بُری صورتحال 
اختیار کر چکے ہیں،
حیدرآباد میں تعلیم کا بھی کوئی پُرسان حال نہیں ہے ، سرکاری اسکولوں
میں تو تعلیم بلکل نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی صورتحال پرائیوٹ 
اسکولوں کی بھی ہے اُن کی کارکردگی بھی صرف فیس کی وصولی تک محدود 
ہے ، کچھ اسکول ہیں جہاں معیاری تعلیم بھی دی جاتی ہے پر اُن کی تعداد
بھی اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ ، اسکے ساتھ ساتھ نویں
دسویں کے امتحانات میں کاپی کلچر بھی ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

Tuesday, 28 February 2017

Travelogue

نامہ نگار اپنے دوست کے ہمراہ

وارث بن اعظم
2K14/MC/102
ریل کا پہلا سفر

ریل گاڑی کا نام سنتے اور اسے اکثر
دیکھتے بھی رہتے تھے ،مگر صد افسوس ہی
رہا تھا کہ جوان ہو گئے پر کبھی ریل گاڑی 
میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا، اور ریل گاڑی
کا سفر صرف ایک خواب ہی بنا رہا، پر کہتے
ہیں کہ خواب پورے ہو ہی جاتے ہیں ایسا
ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا کہ 2016
کے آخری ایام جاتے جاتے میری یہ 
خواہش بھی پوری کر گئے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے اسکول کے زمانے کے قریبی دوست کی شادی تھی
چونکہ دوست کا تقریباََ خاندان پنجاب میں آباد ہے تو موصوف نے شادی کی
ساری تقریبات پنجاب کے ایک چھوٹے سے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رکھیں،
دوست چونکہ قریبی تھا اور شادی میں شرکت کی دعوت بھی شدت سے دی گئی
تھی سو دعوت قبول کر لی گئیکہ چلو اِسی بہانے میرے ریل گاڑی کے سفر کے
خواب کوبھی تعبیر مل جائے گی، اس سفر کے لئے میں نے ایک اپنے دوست کو
بھی ساتھ لے لیا کہ اُس نے بھی اس سے پہلے سفر نہیں کیا تھا ۔
سب سے پہلے ہم نے ریلوے اسٹیشن حیدرآباد کا رُخ کیا کہ ٹکٹ بُک کروائی
جائے جب ہم اسٹیشن پہنچے تو ایک لمبی لائن ہمارا انتظار کر رہی تھی لائن میں 
لگے اور تقریباََ آدھے گھنٹے بعد ہمارا نمبر آیا جب ہم نے اپنے مقررہ
اسٹیشن کی ٹکٹ طلب کی تو پہلے تو صاف صاف منع کردیا گیا مگر ہمارے 
پُر زور اصرار پر ٹکٹ دینے کی حامی بھری گئی اور مقرر رقم سے 300 روپے
اوپر و صول کئے گئے۔
ریل گاڑی کے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے اسٹیشن پہنچ گئے مگر گاڑی 
مقرر قت سے ایک گھنٹہ لیٹ آئی، کافی تگ و دو کے بعد گاڑی میں
چڑھے اور اپنی سیٹ تک پہنچ کر شُکر ادا کیا ، ریل گاڑی نے ایک جھٹکے
سے چلنا شروع کیا تو ہم ایک دم سے ڈر گئے کہ اللہ خیر کرے، ساتھ
بیٹھے لوگ سمجھ گئے کہ یہ ہمارا پہلا سفر ہے انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ ریل
گاڑی اسی طرح چلتی ہے ۔ ریل گاڑی کی اندر سے حالت ایسی تھی کہ
جتنے مسافر سیٹ پر بیٹھے تھے اُن سے زیادہ زمین پر بیٹھ کر سفر کر رہے
تھے،سفر کی خوشی میں ہم سے گھر میں کھانا بھی نہیں کھایا گیا تھا تو باندھ کر 
ساتھ لے لیا تھا اور جب ریل گاڑی میں کھانا شروع کیا تو جو حالت 
ہوئی بتانے سے قاصر ہوں بس یہ سمجھ لیں کہ جتنا کھایا اُس سے زیادہ گرایا۔ 
چونکہ گاڑی میں لائٹ کی سہولت بلکل نہیں تھی تو رات ہوتے ہوتے
مکمل تاریکی چھا گئی ہم اور سہم گئے اور ہماری بدقسمتی کہ روہڑی اسٹیشن 
کراس کرنے کے ایک گھنٹے بعد ریل گاڑی ایک سنسان جگہ پر کھڑی ہوگئی،
مسافر اترنا شروع ہو گئے مگر ہم میں ہمت نہیں ہوئی کہ اُترتے کھڑکی سے 
جھانک کر پوچھا تو پتہ چلا کہ انجن میں خرابی ہو گئی ہے ہم اور سہم گئے کوئی 3
گھنٹے سنسان جگہ پر گزارنے کے بعد دوسرا انجن آیا اور ریل گاڑی چلنا اسٹارٹ
ہوئی اور اس رفتار سے چلی کہ بقیہ 4گھنٹے کا سفر7 گھنٹے میں طے ہوا اللہ اللہ
کر کے ہمارامقررہ اسٹیشن آیا دل میں خدا کا شُکر ادا کیا اور ریل گاڑی سے اتر گئے
اسٹیشن پر ہمارے دوست صاحب ہمیں لینے کے لئے موجود تھے اُن
سے فرطِ جزبات سے ملے اور اسٹیشن سے گھرکے لئے روانہ ہو گئے۔

Tuesday, 14 February 2017

Child Labour


وارث بن اعظم
2K14/MC/102
بلاگ: چائلڈ لیبر

چائلڈ لیبر مطلب بچوں سے محنت و مشقت کروانا، ان سے مختلف 
قسم کے کام لینا، بچوں سے ان کا بچپن چھین لینا، جب کے بچپن معصومیت، ناز


اُٹھوانے، کھیلنے اور اسکول جانے کی عمر ہوتی ہے۔
چائلڈ لیبر کو دو حصوں میں بیان کیا جاسکتا ہے پہلا حصہ جس کے مطابق
مثال کے طور پر ایک بچہ ہے وہ صبح میں اسکول جاتا ہے اور شام میں اپنی فیملی کو سپورٹ 
کرنے کے لے کام کرتا ہے اور اس قسم کے کام سے اسکی صحت و نشوونما پر اثر نہ پڑے
تو ایسا کام چائلڈ لیبر کے زمرے میں نہیں آتا جبکہ دوسری طرف کوئی ایسا کام جو کہ کسی
بچے کو ممکنہ طور پر اُسکے بچپن سے محروم کردے، اور اس کا اثرجسمانی، اخلاقی اور ذہنی طور 
پربچے کی نشوونما پر پڑے تو ایسا کام چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے۔
 
ایک سروے   
انٹرنیشنل لیبر آرگنائیزیشن
 کے مطابق اس
  
وقت پاکستان میں 19فی صد اسکول کے بچوں اور40فی صد اسٹریٹ چلڈرنز(ایسے 
بچے جن کا گھر بار نہیں ہو سڑک پر رہتے ہوں کوئی کفالت کرنے والا نہیں ہو) کو کام
کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے ،چائلڈ لیبر کا مسئلہ مختلف مواقعوں پر افسوسناک واقعات
کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے جس میں فیکٹری میں کام کرتے ہوئے بچے کی ہلاکت
ہو جانا جیسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں اسکے علاوہ حالیہ ہی پاکستان کے دارالحکومت 
اسلام آباد میں ایک واقعہ سامنے آیا جس میں ایک با وقار فرد اور اُسکی بیوی نے گھر میں کام 
کرنے والی کمسن ملازمہ پر شدید تشدد کیا ، حالانکہ پاکستان میں اس کے لیے ایک موئثر
قانون موجود ہے جسکے مطابق 14 سال سے کم عمر بچوں سے کام کروانا جرم ہے اور اسکے 
ساتھ ہی یہ گورنمنٹ کی ذمیداری ہے کہ وہ5 سال کی عمر سے لے کر16 سال کی عمر کے 
بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔
چائلڈ لیبر کی زیادہ تر وجہ یہ ہی ہے کہ پاکستان کے وسائل ناکافی ہیں اور
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور لاشعوری بھی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے،حکومت کی 2016
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 40 فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے
ہیں اسی طرح جب وہ اپنے بچوں کو نا کافی وسائل کی بناء پر تعلیم نہیں دلا پاتے تو انہیں
محنت و مشقت پر لگا دیتے ہیں، اس وقت چائلڈ لیبرپر پوری دنیا میں پابندی ہے،

حکومت کو چاہیئے کہ چائلڈ لیبر پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ بچوں
کے لئے ایڈ پلان بنائے جو بچوں کو جبری مشقت سے بچائے اور ایسے بچے جن کا
کفالت کرنے والا کوئی نہیں اُن کے لئے الاؤنس مقرر کرے تاکہ کوئی بھی بچہ خوابوں
سے محروم نہ رہ سکے اور پڑھنے لکھنے والے یہ ہاتھ سخت جان اور کُھر درے نہ ہو سکیں۔

Tuesday, 24 January 2017

تعلیم کی خستہ حالی


وارث بن اعظم
2K/14/MC/102

تعلیم کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ ’’ اگر کسی قوم کو برباد کرنا ہے تو اسکی تعلیم کو تباہ کردو‘‘ ۔ 
تعلیم ایک ایسی چیز ہے جوقوموں کا مقدر بناتی ہے، تعلیم ہر انسان کے لئے ضروری ہے، 
تعلیم ہر جگہ سے حا صل کی جا سکتی ہے جس میں چال ڈھال سے لے کر بولنا وغیرہ سب شامل
ہیں مگر عملی تعلیم صرف تعلیمی اداروں سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی خراب
صورتحال سب کے سامنے ہے ، آئے دن پاکستان کے سرکاری اسکولوں کی داستانِ الم سناتی
ہوئی اخباری رپورٹیں بھی نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں،
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت حکومت پر لازم ہے کہ وہ 5سے16سال کی عمر کے 
بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے، مگر حقیقت اسکے برعکس ہے، حکومت پاکستان نے بجٹ
2015-2016میں تعلیم کے لئے451ٹریلین میں سے 734بلین رکھے جو کہ مجموعی
بجٹ کا صرف 2.68فی صد ہے ۔اسی طرح 2015-16 میں میلینیم ڈولپمنٹ گولز
(MDGs) جو کہ تعلیم کے لئے سیٹ رکھا گیا تھا اسکے مطابق تعلیم کی
شرح(لٹریسی ریٹ)88فی صد تک لے جانے کا پلان بنایا گیا تھا 
جو کہ اس وقت تک57فی صد ہی ہے ،اسی طرح پرائمری میں انرولمنٹ کا
پلان 100فی صد تک رکھا گیا تھا جو کہ 58فی صد تک ہی کامیاب ہو سکے ، 
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت سرکاری اسکولوں کی تعداد 
تقریباََ1لاکھ53ہزار375ہے جن میں سے 11ہزار 96اسکولوں 
کے پاس عمارتیں موجود نہیں ہیں،نہ فرنیچر، نہ ہی بیٹھنے کیلئے ڈیسک، اس کے 
باوجود بچے صحن میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر تیار ہیں اورجو اسکول ہیں
انکا انفراسٹرکچر اس حد تک خراب ہے کہ ایک اسکول میں اگر 600 طلباء ہیں 
تو اُس اسکول میں کمروں کی تعداد 4ہے، کلاس روم میں نہ ہی پنکھے ہیں ،
عمارتوں کی حالت بھی ایسی ہے کی ابھی گریں۔
رہی سہی کثر اساتذہ نے پوری کردی ہے، اساتذہ کے ذہنوں میں یہ بات 
پروان چڑھ چکی ہے کہ پڑھانے کی کیا ضرورت ہے، یہ ایک مخصوص ذہنیت 
ہے جو خصوصاََ سرکاری اسکولوں کے اسا تذہ کے ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے۔
معاشرے کی ترقی کا بنیادی راز تعلیم ہی ہے مگر تعلیم کا حال یہ ہے کہ اسکول نہیں 
ہیں ،اسکول ہیں تو پڑھانے والا نہیں ہے ، پڑھانے والا ہے تو کتابیں 
نہیں ہیں۔