وارث بن اعظم
2K/14/MC/102
تعلیم کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ ’’ اگر کسی قوم کو برباد کرنا ہے تو اسکی تعلیم کو تباہ کردو‘‘ ۔
تعلیم ایک ایسی چیز ہے جوقوموں کا مقدر بناتی ہے، تعلیم ہر انسان کے لئے ضروری ہے،
تعلیم ہر جگہ سے حا صل کی جا سکتی ہے جس میں چال ڈھال سے لے کر بولنا وغیرہ سب شامل
ہیں مگر عملی تعلیم صرف تعلیمی اداروں سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی خراب
صورتحال سب کے سامنے ہے ، آئے دن پاکستان کے سرکاری اسکولوں کی داستانِ الم سناتی
ہوئی اخباری رپورٹیں بھی نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں،
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت حکومت پر لازم ہے کہ وہ 5سے16سال کی عمر کے
بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے، مگر حقیقت اسکے برعکس ہے، حکومت پاکستان نے بجٹ
2015-2016میں تعلیم کے لئے451ٹریلین میں سے 734بلین رکھے جو کہ مجموعی
بجٹ کا صرف 2.68فی صد ہے ۔اسی طرح 2015-16 میں میلینیم ڈولپمنٹ گولز
(MDGs) جو کہ تعلیم کے لئے سیٹ رکھا گیا تھا اسکے مطابق تعلیم کی
شرح(لٹریسی ریٹ)88فی صد تک لے جانے کا پلان بنایا گیا تھا
جو کہ اس وقت تک57فی صد ہی ہے ،اسی طرح پرائمری میں انرولمنٹ کا
پلان 100فی صد تک رکھا گیا تھا جو کہ 58فی صد تک ہی کامیاب ہو سکے ،
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت سرکاری اسکولوں کی تعداد
تقریباََ1لاکھ53ہزار375ہے جن میں سے 11ہزار 96اسکولوں
کے پاس عمارتیں موجود نہیں ہیں،نہ فرنیچر، نہ ہی بیٹھنے کیلئے ڈیسک، اس کے
باوجود بچے صحن میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر تیار ہیں اورجو اسکول ہیں
انکا انفراسٹرکچر اس حد تک خراب ہے کہ ایک اسکول میں اگر 600 طلباء ہیں
تو اُس اسکول میں کمروں کی تعداد 4ہے، کلاس روم میں نہ ہی پنکھے ہیں ،
عمارتوں کی حالت بھی ایسی ہے کی ابھی گریں۔
رہی سہی کثر اساتذہ نے پوری کردی ہے، اساتذہ کے ذہنوں میں یہ بات
پروان چڑھ چکی ہے کہ پڑھانے کی کیا ضرورت ہے، یہ ایک مخصوص ذہنیت
ہے جو خصوصاََ سرکاری اسکولوں کے اسا تذہ کے ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے۔
معاشرے کی ترقی کا بنیادی راز تعلیم ہی ہے مگر تعلیم کا حال یہ ہے کہ اسکول نہیں
ہیں ،اسکول ہیں تو پڑھانے والا نہیں ہے ، پڑھانے والا ہے تو کتابیں
نہیں ہیں۔
2K/14/MC/102
تعلیم کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ ’’ اگر کسی قوم کو برباد کرنا ہے تو اسکی تعلیم کو تباہ کردو‘‘ ۔
تعلیم ایک ایسی چیز ہے جوقوموں کا مقدر بناتی ہے، تعلیم ہر انسان کے لئے ضروری ہے،
تعلیم ہر جگہ سے حا صل کی جا سکتی ہے جس میں چال ڈھال سے لے کر بولنا وغیرہ سب شامل
ہیں مگر عملی تعلیم صرف تعلیمی اداروں سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی خراب
صورتحال سب کے سامنے ہے ، آئے دن پاکستان کے سرکاری اسکولوں کی داستانِ الم سناتی
ہوئی اخباری رپورٹیں بھی نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں،
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت حکومت پر لازم ہے کہ وہ 5سے16سال کی عمر کے
بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے، مگر حقیقت اسکے برعکس ہے، حکومت پاکستان نے بجٹ
2015-2016میں تعلیم کے لئے451ٹریلین میں سے 734بلین رکھے جو کہ مجموعی
بجٹ کا صرف 2.68فی صد ہے ۔اسی طرح 2015-16 میں میلینیم ڈولپمنٹ گولز
(MDGs) جو کہ تعلیم کے لئے سیٹ رکھا گیا تھا اسکے مطابق تعلیم کی
شرح(لٹریسی ریٹ)88فی صد تک لے جانے کا پلان بنایا گیا تھا
جو کہ اس وقت تک57فی صد ہی ہے ،اسی طرح پرائمری میں انرولمنٹ کا
پلان 100فی صد تک رکھا گیا تھا جو کہ 58فی صد تک ہی کامیاب ہو سکے ،
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت سرکاری اسکولوں کی تعداد
تقریباََ1لاکھ53ہزار375ہے جن میں سے 11ہزار 96اسکولوں
کے پاس عمارتیں موجود نہیں ہیں،نہ فرنیچر، نہ ہی بیٹھنے کیلئے ڈیسک، اس کے
باوجود بچے صحن میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر تیار ہیں اورجو اسکول ہیں
انکا انفراسٹرکچر اس حد تک خراب ہے کہ ایک اسکول میں اگر 600 طلباء ہیں
تو اُس اسکول میں کمروں کی تعداد 4ہے، کلاس روم میں نہ ہی پنکھے ہیں ،
عمارتوں کی حالت بھی ایسی ہے کی ابھی گریں۔
رہی سہی کثر اساتذہ نے پوری کردی ہے، اساتذہ کے ذہنوں میں یہ بات
پروان چڑھ چکی ہے کہ پڑھانے کی کیا ضرورت ہے، یہ ایک مخصوص ذہنیت
ہے جو خصوصاََ سرکاری اسکولوں کے اسا تذہ کے ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے۔
معاشرے کی ترقی کا بنیادی راز تعلیم ہی ہے مگر تعلیم کا حال یہ ہے کہ اسکول نہیں
ہیں ،اسکول ہیں تو پڑھانے والا نہیں ہے ، پڑھانے والا ہے تو کتابیں
نہیں ہیں۔
Good keep it up..
ReplyDeletetoo good
ReplyDeletecheck mail plz
ReplyDelete