وارث بن اعظم
2K14/MC/102
بلاگ: مسائل میں گھِرا حیدرآباد
حیدرآباد پاکستان کا چھٹا اور صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ، اسکی آبادی ایک
اندازے کے مطابق3.4ملین ہے اور گاہے بگاہے اس میں تیزی سے
اضافہ ہوتا جارہا ہے، شہر حیدرآباد میں سہولتوں کا ویسے ہی فقدان ہے اور
آبادی بڑھنے سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اگر اندرونِ شہر کی بات
کی جائے تو اندرونِ شہر صرف ایک بڑا سرکاری ہسپتال ہے جو صوبائی اور
ضلعی حکومت کی چپقلش کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہے، اسکے ساتھ ساتھ
شہر حیدرآباد میں سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی
گاڑیوں کی تعداد کی وجہ سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہے، ٹریفک کا
مسئلہ پہلے تو مصروف شاہراؤں تک محدود تھا پر اب یہ صورتحال چھوٹی ہو
یا بڑی ہر شاہراہ تک پہنچ گیا ہے، اس حوالے سے شہر حیدرآباد میں
انکروچمنٹ کے کام کا آغاز کیا گیا تھا شروع شروع میں تو بہت تیزی
سے کام کیا گیا مگر پھر وہی روایتی بات کہ جب تک غریبوں کی دکانوں،
پتھاروں ، گھروں کو انکروچمنٹ کی نظر کرا جاتا رہا تو سب اچھا تھا مگر جب
انکروچمنٹ والوں کا ہاتھ با اثر لوگوں تک پہنچا تو اس کام کو اثر و رسوخ
استعمال کر کے رکوادیا گیا۔اسکے علاوہ حیدرآباد میں پانی کا بھی بہت مسئلہ
ہے اول تو پانی آتا نہیں ہے اور اگر آتا بھی ہے تو رات کے کسی پہر عوام
جاگ جاگ کر پانی بھرتی ہے اور وہ پانی بھی بدبو زدہ ہوتا ہے یعنی پینا تو
درکنار اگر کپڑے بھی دھو لئے جائیں تو کپڑوں میں سے بد بو نہیں جاتی،
یہی وجہ ہے کہ آجکل حیدرآباد میں سب سے زیادہ جو کاروبار عروج
پر ہے اُس میں پانی کا کام ہے اور حیدرآباد کی عوام خرید کر پانی پینے
پر مجبور ہے،
کسی دور میں حیدرآباد خوبصورت شہروں میں شمار ہو تا تھا ، مگر اب
نجانے اس کی خوبصورتی کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے، صفائی
ستھرائی کی حالت انتہائی خراب ہے جب کہ پہلے اس کی ذمہ داری
صوبائی حکومت پر ڈال دی جاتی تھی کی بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ
سے شہر مسائل کا شکار ہے، مگر اب چونکہ بلدیاتی الیکشن ہو ئے بھی تقریباََ
دو سال گزرنے کو ہیں اور مسائل حل تو کیا اُس سے بھی بُری صورتحال
اختیار کر چکے ہیں،
حیدرآباد میں تعلیم کا بھی کوئی پُرسان حال نہیں ہے ، سرکاری اسکولوں
میں تو تعلیم بلکل نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی صورتحال پرائیوٹ
اسکولوں کی بھی ہے اُن کی کارکردگی بھی صرف فیس کی وصولی تک محدود
ہے ، کچھ اسکول ہیں جہاں معیاری تعلیم بھی دی جاتی ہے پر اُن کی تعداد
بھی اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ ، اسکے ساتھ ساتھ نویں
دسویں کے امتحانات میں کاپی کلچر بھی ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
2K14/MC/102
بلاگ: مسائل میں گھِرا حیدرآباد
حیدرآباد پاکستان کا چھٹا اور صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ، اسکی آبادی ایک
اندازے کے مطابق3.4ملین ہے اور گاہے بگاہے اس میں تیزی سے
اضافہ ہوتا جارہا ہے، شہر حیدرآباد میں سہولتوں کا ویسے ہی فقدان ہے اور
آبادی بڑھنے سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اگر اندرونِ شہر کی بات
کی جائے تو اندرونِ شہر صرف ایک بڑا سرکاری ہسپتال ہے جو صوبائی اور
ضلعی حکومت کی چپقلش کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہے، اسکے ساتھ ساتھ
شہر حیدرآباد میں سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی
گاڑیوں کی تعداد کی وجہ سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہے، ٹریفک کا
مسئلہ پہلے تو مصروف شاہراؤں تک محدود تھا پر اب یہ صورتحال چھوٹی ہو
یا بڑی ہر شاہراہ تک پہنچ گیا ہے، اس حوالے سے شہر حیدرآباد میں
انکروچمنٹ کے کام کا آغاز کیا گیا تھا شروع شروع میں تو بہت تیزی
سے کام کیا گیا مگر پھر وہی روایتی بات کہ جب تک غریبوں کی دکانوں،
پتھاروں ، گھروں کو انکروچمنٹ کی نظر کرا جاتا رہا تو سب اچھا تھا مگر جب
انکروچمنٹ والوں کا ہاتھ با اثر لوگوں تک پہنچا تو اس کام کو اثر و رسوخ
استعمال کر کے رکوادیا گیا۔اسکے علاوہ حیدرآباد میں پانی کا بھی بہت مسئلہ
ہے اول تو پانی آتا نہیں ہے اور اگر آتا بھی ہے تو رات کے کسی پہر عوام
جاگ جاگ کر پانی بھرتی ہے اور وہ پانی بھی بدبو زدہ ہوتا ہے یعنی پینا تو
درکنار اگر کپڑے بھی دھو لئے جائیں تو کپڑوں میں سے بد بو نہیں جاتی،
یہی وجہ ہے کہ آجکل حیدرآباد میں سب سے زیادہ جو کاروبار عروج
پر ہے اُس میں پانی کا کام ہے اور حیدرآباد کی عوام خرید کر پانی پینے
پر مجبور ہے،
کسی دور میں حیدرآباد خوبصورت شہروں میں شمار ہو تا تھا ، مگر اب
نجانے اس کی خوبصورتی کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے، صفائی
ستھرائی کی حالت انتہائی خراب ہے جب کہ پہلے اس کی ذمہ داری
صوبائی حکومت پر ڈال دی جاتی تھی کی بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ
سے شہر مسائل کا شکار ہے، مگر اب چونکہ بلدیاتی الیکشن ہو ئے بھی تقریباََ
دو سال گزرنے کو ہیں اور مسائل حل تو کیا اُس سے بھی بُری صورتحال
اختیار کر چکے ہیں،
حیدرآباد میں تعلیم کا بھی کوئی پُرسان حال نہیں ہے ، سرکاری اسکولوں
میں تو تعلیم بلکل نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی صورتحال پرائیوٹ
اسکولوں کی بھی ہے اُن کی کارکردگی بھی صرف فیس کی وصولی تک محدود
ہے ، کچھ اسکول ہیں جہاں معیاری تعلیم بھی دی جاتی ہے پر اُن کی تعداد
بھی اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ ، اسکے ساتھ ساتھ نویں
دسویں کے امتحانات میں کاپی کلچر بھی ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
gud one ��
ReplyDeleteشکریہ
DeleteWhy lines are broken? Photos of problems should be there. Seems bit smaller
ReplyDelete