Tuesday, 28 February 2017

Travelogue

نامہ نگار اپنے دوست کے ہمراہ

وارث بن اعظم
2K14/MC/102
ریل کا پہلا سفر

ریل گاڑی کا نام سنتے اور اسے اکثر
دیکھتے بھی رہتے تھے ،مگر صد افسوس ہی
رہا تھا کہ جوان ہو گئے پر کبھی ریل گاڑی 
میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا، اور ریل گاڑی
کا سفر صرف ایک خواب ہی بنا رہا، پر کہتے
ہیں کہ خواب پورے ہو ہی جاتے ہیں ایسا
ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا کہ 2016
کے آخری ایام جاتے جاتے میری یہ 
خواہش بھی پوری کر گئے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے اسکول کے زمانے کے قریبی دوست کی شادی تھی
چونکہ دوست کا تقریباََ خاندان پنجاب میں آباد ہے تو موصوف نے شادی کی
ساری تقریبات پنجاب کے ایک چھوٹے سے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رکھیں،
دوست چونکہ قریبی تھا اور شادی میں شرکت کی دعوت بھی شدت سے دی گئی
تھی سو دعوت قبول کر لی گئیکہ چلو اِسی بہانے میرے ریل گاڑی کے سفر کے
خواب کوبھی تعبیر مل جائے گی، اس سفر کے لئے میں نے ایک اپنے دوست کو
بھی ساتھ لے لیا کہ اُس نے بھی اس سے پہلے سفر نہیں کیا تھا ۔
سب سے پہلے ہم نے ریلوے اسٹیشن حیدرآباد کا رُخ کیا کہ ٹکٹ بُک کروائی
جائے جب ہم اسٹیشن پہنچے تو ایک لمبی لائن ہمارا انتظار کر رہی تھی لائن میں 
لگے اور تقریباََ آدھے گھنٹے بعد ہمارا نمبر آیا جب ہم نے اپنے مقررہ
اسٹیشن کی ٹکٹ طلب کی تو پہلے تو صاف صاف منع کردیا گیا مگر ہمارے 
پُر زور اصرار پر ٹکٹ دینے کی حامی بھری گئی اور مقرر رقم سے 300 روپے
اوپر و صول کئے گئے۔
ریل گاڑی کے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے اسٹیشن پہنچ گئے مگر گاڑی 
مقرر قت سے ایک گھنٹہ لیٹ آئی، کافی تگ و دو کے بعد گاڑی میں
چڑھے اور اپنی سیٹ تک پہنچ کر شُکر ادا کیا ، ریل گاڑی نے ایک جھٹکے
سے چلنا شروع کیا تو ہم ایک دم سے ڈر گئے کہ اللہ خیر کرے، ساتھ
بیٹھے لوگ سمجھ گئے کہ یہ ہمارا پہلا سفر ہے انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ ریل
گاڑی اسی طرح چلتی ہے ۔ ریل گاڑی کی اندر سے حالت ایسی تھی کہ
جتنے مسافر سیٹ پر بیٹھے تھے اُن سے زیادہ زمین پر بیٹھ کر سفر کر رہے
تھے،سفر کی خوشی میں ہم سے گھر میں کھانا بھی نہیں کھایا گیا تھا تو باندھ کر 
ساتھ لے لیا تھا اور جب ریل گاڑی میں کھانا شروع کیا تو جو حالت 
ہوئی بتانے سے قاصر ہوں بس یہ سمجھ لیں کہ جتنا کھایا اُس سے زیادہ گرایا۔ 
چونکہ گاڑی میں لائٹ کی سہولت بلکل نہیں تھی تو رات ہوتے ہوتے
مکمل تاریکی چھا گئی ہم اور سہم گئے اور ہماری بدقسمتی کہ روہڑی اسٹیشن 
کراس کرنے کے ایک گھنٹے بعد ریل گاڑی ایک سنسان جگہ پر کھڑی ہوگئی،
مسافر اترنا شروع ہو گئے مگر ہم میں ہمت نہیں ہوئی کہ اُترتے کھڑکی سے 
جھانک کر پوچھا تو پتہ چلا کہ انجن میں خرابی ہو گئی ہے ہم اور سہم گئے کوئی 3
گھنٹے سنسان جگہ پر گزارنے کے بعد دوسرا انجن آیا اور ریل گاڑی چلنا اسٹارٹ
ہوئی اور اس رفتار سے چلی کہ بقیہ 4گھنٹے کا سفر7 گھنٹے میں طے ہوا اللہ اللہ
کر کے ہمارامقررہ اسٹیشن آیا دل میں خدا کا شُکر ادا کیا اور ریل گاڑی سے اتر گئے
اسٹیشن پر ہمارے دوست صاحب ہمیں لینے کے لئے موجود تھے اُن
سے فرطِ جزبات سے ملے اور اسٹیشن سے گھرکے لئے روانہ ہو گئے۔

4 comments: