Monday, 30 April 2018

صائمہ جروار لاڑکانہ کی زینب ۔۔۔۔ #SaimaJarwar


صائمہ جروار لاڑکانہ کی زینب ۔۔۔۔


صائمہ لاڑکانہ کی ایک ننھی کلی جو مرجھا گئی ، جسے سنگسار کر نے کے بعد نا حق قتل کر دیا گیا ، کوئی نہیں بولتا اُس کے حق میں ، کوئی نہیں لکھتا
صائمہ کے درندوں جیسے قاتلوں کے خلاف ، نہیں لیتا کوئی سوموٹو ۔۔۔
ارے ظالمو صائمہ جروارکو بھی شہید کہ دو ،دے دو اُس کی ماں کو دلاسے کے جس طرح تم نے زینب کی ماں
کو دلاسے دیئے تھے کہ زینب شہید ہوئی ہے، کر لو جھوٹے وعدے ، آخر کب تک جھوٹ کی لاٹھی پکڑے رکھو گے، کیا قصور تھا اس ننھی پھول جیسی کلی کا کیا قصور تھا اُس کے گھر والوں کا صرف یہ کہ وہ ایک ایسے ملک کے رہائشی ہیں جہاں اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنی صائمہ قتل کر دی گئیں ، نہ جانے کتنی صائمہ سنگسار کی گئیں ،کبھی زینب کے روپ میں کیا تم بھول گئے عمان فاطمہ کو، کیا تمھیں نہیں یاد فوزیہ ، کیا تمھیں نہیں یاداسمہ، تمھیں تو نور فاطمہ اور لائبہ بھی یاد نہیں ہونگی جنہیں سنگسار کرکے صائمہ ہی کی طرح بے دردی سے قتل کر دیا گیا، پچھلے ایک سال کے دوران اس طرح کے بارہ واقعات ہوئے ، ایک ہی عمر کی لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا، کیا کیا گیا اُن واقعات کا کچھ نہیں ۔۔۔ کسی نے بھی کیا خوب کہا ہے یہاں سب بکتا ہے تم دام تو بولو ۔۔
میں پوچھتا ہوں آج بے نظیر کے بلاول سے کہ زینب کے قتل کو پنجاب حکومت کے منہ پر طمانچہ کہا تھا ، صائمہ کا طمانچہ کس کے منہ پر مارو گے،بلاول صاحب صائمہ کا تو تعلق بھی لاڑکانہ سے ہے ، بے نظیر کے لاڑکانہ سے۔۔
صائمہ ایک پھول جیسی بچی نجانے کتنے خواب تھے اُس کی آنکھوں میں کیا کیا سوچا ہو گا اُس کے ماں باپ نے اُس کے لئے، بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں ، گھر مہکتا ہے بچوں سے، نہ جانے کون سے انسان کی شکل میں بھیڑئیے ہیں ، کیسی حوس ہے یہ جو ان معصوم پھولوں کو کچل رہی ہے، ننھی صائمہ کے قتل کے دو زمیدار ہیں ایک وہ ظالم بھیڑئیے جنہوں نے صائمہ کو سنگسار کرکے ناحق قتل کیا دوسرے حکمران جو صائمہ کو سنگسار ہونے سے نہ روک سکے، پاکستان جو اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر بنا تھا، کہاں گیا تمھارا وہ نظریہ، یاد نہیں تمہیں کہ حضرت عمر کے دل کو خوف اُن کا راتوں کو اس ڈر سے گھومنا کہ کوئی بھوکا نہ سوجائے، کہیں کوئی جانور ٹھوکر لگنے سے بھی زخمی نہ ہو جائے، سوال ہو گا تم سے بھی ایک ایک صائمہ کا کہ کیوں نہیں بچا سکے ، ایک ایک کا جواب دینا ہوگا،۔ خدارا اب بھی وقت ہے جاگ جاؤ ، کر لو ٹھوس اقدامات بنا دو کسی قاتل کو پکڑ کر عبرت کا نشان ، دے دو پھانسی اُسے بیچ چوراہے پر ، یہ صائمہ بھی کسی کی بیٹی ہے کسی کا لختِ جگر ہے اس صائمہ کو تو نہ بچاسکے اور نہ جانے کتنی صائمہ ایسی ہیں جنہیں یہ حوس کے پجاری نشانہ بنانا چاہتے ہیں ، بچالو اُنھیں ۔۔۔۔خدارابچالو ۔۔۔۔

Friday, 27 April 2018

حیدرآباد میں کھلے عام فروخت ہوتا مضر صحت آئل



حیدرآباد میں کھلے عام فروخت ہوتا مضر صحت آئل


پاکستان میں اس وقت کئی اقسام کی بیماریوں کا راج ہے ، جس میں بلڈ پریشر، کولیسٹرول، پھیپھڑوں کی بیماری، جگر کی بیماری اور دیگی کئی اقسام کی بیماریا ں ہیں جنہوں نے پاکستانیوں کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے، اگر ان بیماریوں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے صلاح کی جائے تو وہ سب سے پہلے ان
بیماریوں کا سبب مضرِ صحت اشیاء اور باہر کے آلودہ کھانوں کو قرار دیتے ہیں ، اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھر پر کھانا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں ،لیکن جب ان مشوروں پر عمل کرنے کے بعد بھی انسان کی زندگی میں بہتری نہیںآتی تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کے آخر کیا وجہ ہے، جب وہ اس امر پر سوچ و بچار کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مسئلا صرفباہر کے کھانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ گھر کے کھانے کی بھی صورتحال بھی باہر جیسی ہی ہے، کیونکہ وہ سبزی ، دال، چاول ہر چیز کواچھی طرح دھو کر استعمال کرتا ہے ، لیکن جب بات کوکنگ آئل کی آتی ہے تو وہ بغیر کچھ سوچے ایک اچھی اور نامور کمپنی کا کوکنگ آئل استعمال کر لیتا ہے، اور کچھ جعلسازوں اور ناجائز منافع خوروں کی وجہ سے بیماریوں کی طرف کھنچتا چلا آتا ہے۔ حیدرآباد پاکستان کا چھٹا اور صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے،حیدرآباد جیسے شہر میں اس وقت کھلے تیل کا کام عروج پر ہے اور اس وقت حیدرآباد میں کھلا تیل بنانے کے کارخانوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے جس میں سے زیادہ تر کارخانے شہر کے پوشعلاقوں میں واقع ہیں جن میں ٹاور مارکیٹ، ہیرآباد، فقیر کا پڑ، پریٹ آباد اور ٹنڈو ولی محمد قابل ذکر ہیں، اور ان کارخانوں سے یہ مضر صحت آئل تقریباََ پورے سندہ کو سپلائی ہوتا ہے اور یہ کارخانے مشہو ر کمپنیز کا نام اور اُن کمپنیز کے مونوگرام آئل کے ڈبوں میں چھپواکر پورے سندھ میں سپلائی کرتے ہیں اور اس آئل کی فی کلو قیمت 160سے200 روپے تک ہوتی ہے، ملنے والی معلومات کے مطابق یہ کارخانے آئل بنانے کے لئے جانوروں کی آنتیں، اوجھڑی، مرغیوں کی ٹانگیں، اور جانوروں کی ہڈیوں کا استعمال کرتے ہیں، اس دوران جب ایک کارخانے میں کام کرنے
والے مزدور سے پوچھاگیا کہ کیا کبھی کوئی ویجیلنس ٹیم یا پولیس یہاں چھاپہ مارتی ہے تو اُس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ مالک لاکھوں روپے ماہانہ اوپر پہنچاتا ہے تو کونسی ٹیم کونسا چھاپہ، کافی تگ و دو کے بعد جب ایک فرض شناس پولیس والے سے رابطہ کیا تو اُس نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ بات بلکل صحیح ہے کہ اس وقت حیدرآباد میں مضر صحت آئل کے کارخانوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے اور ہر کارخانے کا مالک اپنی حدود میں آنے والے تھانے کو ماہانہ پیسے پہنچاتا ہے ، جو نیچے سے لے کراعلی پولیس حکام تک پہنچتے ہیں۔ جب عام شہریوں سے اس کھلے آئل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ کافی لوگوں نے اس قسم کے کارخانے گھروں میں چھپا کر لگا رکھے ہیں جن میں بیمار
جانوروں کے اعضاء سے آئل تیار کیا جاتا ہے اور اسے ٹین کے ڈبوں میں ایک مشہور کمپنی کا مونو گرام لگا کر مارکیٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے ، اور لوگوں کیلئے یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا اصلی ہی اورکیا نقلی۔

ان منافع خوروں کی ذرا سی لالچ نجانے کتنی معصوم زندگیوں کو تباہ کر دیتیں ہیں اور اس خراب اور مضر صحت آئل کی وجہ سے انسان بے شمار جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں ہیپاٹائیٹس سی، ہیپاٹائیٹس بی، پھیپھڑوں کی بیماری اور نجانے کتنی اوربیماریاں شامل ہیں۔