Thursday, 11 April 2019

امتحانات اور بوٹی مافیا


امتحانات اور بوٹی مافیا

امتحانات میں نقل جسے کاپی کلچرکے حرف عام سے پکارا جاتا ہے، کاپی کوئی کلچر نہیں، کیونکہ کلچر عظیم چیز ہوتی ہے یہ ایک کالا دھبہ ہے، جو ہماری نسلوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، اسے پورے سماج نے قبول کرلیا ہے، والدین بھی اپنے بچوں کو اس سوچ کے ساتھ کاپی کروانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں کہ بچوں کے گریڈ اچھے آئیں گے، کسی دانا نے بھی کیا خوب کہا ہے ،کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم یا میزائیل کی ضرورت نہیں، اس ملک کی تعلیم کے معیار کوگرادیا جائے اور امتحانات میں نقل کی اجازت دے دی جائے، قوم از خود تباہ ہوجائے گی کیونکہ تعلیمی معیار کم ہونے کی وجہ سے مریض ڈاکٹر کے ہاتھوں مرجائے گا، عمارتیں انجینئرز کے ہاتھوں گرجائیں گی، معیشت اکنامسٹ کے ہاتھوں تباہ ہوجائے
گی اور انصاف ججز کے ہاتھوں ناپید ہوجائے گا۔
امتحان مطلب اپنے آپ کو منوانا ، کامیاب ہونا، اگر اس کامیابی اور خود کو منوانے میں غلط راہ کا انتخاب کیا جائے تو وہ دوسروں کے لیے تو بہتر ہوگا پر خود کے ضمیر اور قابلیت پر ہمیشہ کے لئے ایک سوالیہ نشان بن جائے گا، یہی کچھ صورتحال سندھ بھر میں نویں دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں سامنے آرہی ہے، صوبہ بھر میں جاری نویں دسویں کے امتحانات میں تمام تردعوؤں اور انتظامات کے باوجود پرچے وقت سے قبل امتحانی مراکز سے باہر آئے جو کہ واٹس ایپ گروپس میں آسانی سے میسر رہے، تعلیمی حکام اور انتظامیہ نقل کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام رہی، طلباء موبائل فونزسمیت نقل کے دیگر ذرائع سے پرچے حل کرتے رہے، جبکہ سندھ کے کچھ شہروں میں متعلقہ پرچے کی جگہ دوسرے روز کا پرچہ پہنچانے کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں، امتحانی مراکز کی حدود میں غیر متعلقہ افراد کی آمد پر مکمل پابندی کے باوجود بوٹی مافیا پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہی، نقل روکنے اور امتحانات کا جائزہ لینے کے لئے محکمہ تعلیم کی جانب سے مختلف ٹیمیں امتحانی مراکز کا دورہ بھی کرتی رہیں اور یہ دورے محض نمائشی ہی ثابت ہوئے ، دورے کے دوران امتحانی مراکز میں سب اچھا دکھایا گیا، نقل کے متعلق خبروں کے میڈیا کی زینت بننے پر وزیر اعلی سندھ بھی جاگے اور سکھر اور حیدرآباد کے کنٹرولر امتحانات کو معطل کرتے ہوئے ایک پیغام دیا کہ اگر نقل ہوگی تو متعلقہ عملہ اور ذمیداران معطل ہوں گے ، لیکن وزیر اعلی کا یہ پیغام چوبیس گھنٹے تک بھی نہیں چل سکا اور حیدرآباد کے کنٹرولر امتحانات اسٹے آرڈر لا کر دوبارہ اپنی نشست پر
براجمان ہوگئے۔
ہمارے سماج میں قابلیت سے زیادہ گریڈ کو اہمیت دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ہر بچہ حتٰی کہ اس کے والدین کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ گریڈ بہتر سے بہتر بنے اور اس ہی سوچ کی بناء پر وہ ہر حد تک یہاں تک کہ رشوت کا سہارہ لینے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں، ہمارے معاشرے کا بچہ کچھ سیکھنے کی لگن سے نہیں پڑھتا، بلکہ نوکری کے حصول کے لئے پڑھتا ہے، بچہ کی شروع میں ہی اس طرح سے پرورش کی جاتی ہے کہ اس کا حصول تعلیم نہیں نوکری بن جاتا ہے اور شاید ہماری قوم بھول گئی ہے کہ جب تعلیم کا حصول نوکری ہوگا تو نوکر ہی پیدا ہوں گے لیڈر نہیں۔ 
امتحان کا مقصد طالب علم کی قابلیت کو جانچنا ہوتا ہے اور اس میں نقل کے ذریعے ایک نااہل، کام چور اور کاہل شخص ایک محنتی پر ترجیح حاصل کرکے اُسے اور خود کوبھی دھوکا دیتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیئے دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے یہ کبھی نہیں مرتا اور گھوم کر اس فرد کے پاس دوبارہ پہنچ جاتا ہے کیونکہ اسے اپنے ٹھکانے سے بہت محبت ہوتی ہے ، دھوکے کے حوالے سے نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص ہم کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں موجود خامیوں سے ہم سب واقف ہیں امتحانات شروع ہونے سے قبل حل شدہ پرچہ جات کی خرید و فروخت بھی اپنے بام عروج پر پہنچ جاتی ہے مذکورہ پرچہ جات ایک چھوٹی کتاب کی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں جو کہ ایک شاگرد کی عام سی جیب میں ہی سما جاتا ہے، اس عمل پر بھی کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں ہے ، امتحانات ہمارے معاشرے میں خود کو منوانا یا اپنی قابلیت جانچنے کی جگہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگئے ہیں اور یہ عمل ہمارے حکمرانوں پر بھی سوالیہ نشان ہے، ہمارے مستقبل کے معمار جو نقل کے دلدل میں گرتے جارہے ہیں اس کی ذمیداری حکومت ، اساتذہ اور بچوں کے والدین پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ جس عمارت کی بنیاد ہی کچی ہوگی تو اس نے آگے جا کر گرنا ہی ہے، مستقبل کے معماروں کو اس دلدل سے بچانے کے لئے شعور کے ساتھ ساتھ ٹھوس عملی اقدامات کی بھی اشد ضروت ہے۔ 

از قلم (وارث بن اعظم)

Tuesday, 9 April 2019

#TharNeedsUniversity


ایک جیالے کا اپنے قائد کے نام پیغام


مکرمی! اکیسویں صدی کے جدید دور میں بھی تھر پارکر کے صحرا میں تواتر سے بچے غذائی قلت کے باعث موت کی آغوش میں جارہے ہیں، ان اموات کو غذائی قلت سے جوڑ کر اصل مسئلے سے توجہ ہتائی جارہی ہے، تھر پارکر میں کم عمری کی شادی، زیادہ بچوں کی پیدائش، ستر، اسی سال کی عمر تک میں ماں بننا عام سی بات ہے، ان اموات پر قابو پانے کے لئے سب سے بڑی جو ضرورت ہے وہ عوام میں شعور اجاگر کرنا ہے، تھرپارکر ضلع سمیت اس کے گردونواح میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے، تھر کے بچے آج بھی پیلے اسکول میں تعلیم حاصل کرہے ہیں، حال ہی میں تھر کے کالے سونے سے پاکستان بھر کو روشن کرنے کی نوید سنائی گئی ہے ، جس کا باقائدہ افتتاح کرنے آپ تھر کے صحرا جائیں گے، بلاول بھٹو صاحب مجھے یاد ہے جب دیوالی کی خوشیاں منانے آپ نے عمر کوٹ اور الیکشن کے دنوں میں تھر کا دورہ کیا تھا تو تھریوں کا ایک سمندر امڈ آیا تھا، چیئرمین صاحب تھر میں شعور پیدا کرنے کے لئے آپ کو ہی عملی اقدام اٹھانا ہوں گے، تھریوں کو آپ سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، تھر کو امداد کی نہیں یونیورسٹی کی ضرورت ہے، اسکولوں کی ضرورت ہے، میڈیکل، سائنس ، انجینئرنگ ، آرٹس کالجوں کی ضرورت ہے ، کیونکہ چیئرمین صاحب آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کو لازمی اندازہ ہوگا کہ کسی قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے امداد نہیں شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔



(وارث بن اعظم، حیدرآباد)