ہالا میں پیدا ہونے والا عبدالطیف جسے دنیا شاہ عبدالطیف بھٹائی کے نام سے جانتی ہے دنیا سے رخصت ہونے کے 275 سال بعد بھی اپنے کلام کے ذریعے زندہ ہے، آج بھی بھٹ شاہ میں روزانہ کی بنیاد پرشاہ کے سینکڑوں مرید شاہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد شاہ کے راگی فقیروں کے کلام پر جھومتے ہیں۔
بدھ سے سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تین روزہ 275 واں سالانہ عرس شایان شان طریقے سے منایا جارہا ہے، اس ضمن میں سندھ حکومت کی جانب سے عرس کے پہلے روز عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی ۱۱۰۱ھ بمطابق ۱۶۸۹ء کو ضلع حیدرآباد کے تعلقہ ہالا میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام سید حبیب تھا ۔
آپ کے والد علاقہ میں تقوی اور پرہیز گاری کے لئے مشہور تھے اور قریب و جوار کے علاقوں میں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔شاہ عبدالطیف کی والدہ کا تعلق بھی سادات خاندان کے علمی گھرانے سے تھا ، پانچ سال کی عمر میں آپ کو آخوند نور محمد کی علمی درسگاہ میں داخل کیا گیا ، روایت ہے کہ شاہ عبدالطیف نے الف سے آگے پڑھنے سے انکار کردیا تھا لیکن شاہ صاحب کے کلام میں انکی علمی کوششوں کا عمل دخل نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے ۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام شاہ جو رسالو کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کو علم سے بخوبی واقفیت تھی، شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ میں فارسی اور عربی کا دور دورہ تھا اور شاہ صاحب کو سندھی کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی اور ان زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت تھی۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام میں عربی اور فارسی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے، نوجوانی میں اس زمانے کے انقلابات نے بھی شاہ عبدللطیف کو بہت متاثر کیا۔
آپ کے والد علاقہ میں تقوی اور پرہیز گاری کے لئے مشہور تھے اور قریب و جوار کے علاقوں میں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔شاہ عبدالطیف کی والدہ کا تعلق بھی سادات خاندان کے علمی گھرانے سے تھا ، پانچ سال کی عمر میں آپ کو آخوند نور محمد کی علمی درسگاہ میں داخل کیا گیا ، روایت ہے کہ شاہ عبدالطیف نے الف سے آگے پڑھنے سے انکار کردیا تھا لیکن شاہ صاحب کے کلام میں انکی علمی کوششوں کا عمل دخل نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے ۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام شاہ جو رسالو کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کو علم سے بخوبی واقفیت تھی، شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ میں فارسی اور عربی کا دور دورہ تھا اور شاہ صاحب کو سندھی کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی اور ان زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت تھی۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام میں عربی اور فارسی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے، نوجوانی میں اس زمانے کے انقلابات نے بھی شاہ عبدللطیف کو بہت متاثر کیا۔
عشق مجازی کے پردے میں عشق حقیقی کی چنگاری دل میں بھڑکی شاہ صاحب کی شاعری میں والہانہ روحانی کیفیت، تصوف سے گہری شاعری میں شاہ صاحب کے مخاطب عوام ہیں ۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں انسان کو ملک حقیقی کی یاد دلائی ہے، شاہ جو رسالو میں اشعار اس طرح کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ شاعر نے ان اشعار کو روحانی وجد کی حالت میں گایا ہے۔ شاہ صاحب کی پوری شاعری تلاش و جستجو کی شاعری ہے، شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں علاقے کی مشہور داستانوں مومل رانو، عمر ماروی، لیلا چینسر اور سسی پنوں سے تمثیلات کے طور پر بھرپور استفادہ کیا ہے ، شاہ عبداللطیف کی شاعری کا یہ حسن و کمال ہے کہ یہ موسیقی کی عصری روایت سے مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے اور گائے جانے کے قابل ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری سے سندھی زبان کو ہمیشہ کے لیئے زندہ کر دیا ہے،
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا وصال تریسٹھ سال کی عمر میں ۱۴ صفر ۱۱۶۵ھ بمطابق ۱۱۷۶ عیسوی کو بھٹ شاہ میں ہوا ۔ اس زمانے کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ صاحب کے مزار پر ایک دیدہ زیب مقبرہ تعمیر کروایا جو آج محمکہ اوقاف سندھ کے زیر اثر ہے اور سندھی تعمیرات کا ایک شاہکار ہے ۔
شاہ جو رسالو شاہ عبدالطیف بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے جسے ایک روایت کے مطابق شاہ صاحب نے کراڑ جھیل کے کنارے بیٹھ کر لکھا ہے۔ شاہ جو رسالو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کی سرزمین پر قرآن و حدیث کے بعد اسے سب سے زیادہ مانا جا تا ہے۔
شاہ عبدالطیب بھٹائی کا عرس ہر سال اسلامی سال کے دوسرے مہینے صفر کی چودہ تاریخ کو عقیدت و احتام سے منایا جاتا ہے اس موقع پر بھٹ شاہ میں مختلف پروگرام اور تقریبات کے علاوہ شاندار محفل موسیقی بھی منعقد ہوتی ہے جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے فنکار شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کو گائیکی کے انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
تحریر: وارث بن اعظم