Monday, 14 October 2019

Maulana Ka March

مولانا کا مارچ

مولانا فضل الرحمن  جسے بارہواں کھلاڑی کہا جاتا ہے وہ اب فرنٹ فٹ پر آچکے، جمعیت کے اعلانیہ  اسلام آباد مارچ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مولانا کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں، مولانا فضل الرحمٰن سینئر سیاست دان ہیں، ان کو ادراک ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پاکستان میں کس طرح کام کرتے ہیں اور ان کی کیمسٹری کیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) انکے مارچ میں شرکت کریں یا نہ کریں لیکن وہ اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں، دونوں پارٹیاں جانتی ہیں تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہونے والے کو سیاسی
حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔
جمعیت کے مطابق آزادی مارچ ستائیس اکتوبرکوصبح دس بجے ملک کے صوبائی دارلحکومتوں سے روانہ ہوگا او ر اکتیس اکتوبر کو سب ڈی چوک اسلام آباد پر اکھٹا ہوں گے، جمعیت علمائے اسلام کی چاروں صوبوں کی تنظیموں نے مولانا فضل الرحمان کو اپنے صوبے سے مارچ کی قیادت کی درخواست کی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان سندھ سے نکلنے والے آزادی مارچ کی قیادت کریں گے۔سندھ سے نکلنے والی مارچ کی قیادت سے مولانا کو دو فائدے ہیں ایک تو سندھ کی صوبائی حکومت نے مولانا کو بھرپور تعاون کا نہ صرف یقین دلایا ہے بلکہ ہر طرح کی مدد کا بھی کہا ہے، سندھ کی جگہ کسی اور صوبے سے مارچ کی قیادت میں امکانی طور پر مولانا کو دو نقصان ہوسکتے ہیں کیونکہ سندھ کے علاوہ دیگر دو صوبوں میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حمایت یافتہ جماعت کی حکومت ہے تو مارچ کو بھرپور طریقے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی اوردوسرا یہ کہ مولانا کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے، سندھ سے نکلنے کی صورت میں ایک تو مولانا کو مارچ سے قبل سندھ حکومت کی جانب سے گرفتاری  کا خطرہ نہیں دوسرا یہ کہ پنجاب میں داخل ہونے سے قبل مارچ ایک بھرپور زور حرکت میں آچکا ہوگا۔
مولانا کے مارچ کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، حکومتی بوکھلاہٹ بھی اس ہی قدر بڑھ چکی ہے، وفاقی وزراء فواد چوہدری ہو یا فردوس عاشق اعوان، وزیراعلی خیبر پختونخواہ یا ترجمان پنجاب ہوں یا پھر گورنر سندھ سمیت دیگر اراکین اسمبلی ہر کسی پر مولانا کا مارچ سوار ہے۔
عوام بھی  بلکل نہیں تو کچھ کچھ حکومتی پالیسی سے نالاں ہونا شروع ہوگئے ہیں، حکومتی جماعت نے عوام کو الیکشن سے قبل سہانے خواب دکھائے تھے، بڑے بڑے وعدے کیے تھے، لیکن وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہوجائیں۔
مولانا کہتے ہیں کہ  وزیراعظم نے قوم کو کٹے، مرغی اور انڈے تک پہنچانے کے بعد اب لنگر خانے تک پہنچا دیا ہے، اگر یہ وزیراعظم مسلط رہا تو خدشہ ہے کہ یہ کہیں قوم کو یتیم خانے تک نہ پہنچا دیں۔جمعیت علماء اسلام کے نظریے کے مطابق  ان کی جانب سے سول نافرمانی کی کال یا گیس و بجلی کے بل نہیں جلائے جائیں گے لیکن وہ اس وقت تک اسلام آباد میں موجود رہیں گے جب تک یہ حکومت گھر نہیں چلی جائے گی۔ مولانا دو ٹوک انداز میں کہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی ملکی ادارے سے تصادم نہیں چاہتے ہیں، اداروں کو بھی نیوٹرل رہنا چاہیے۔
مولانا کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں اور یہ ایک حقیقیت ہے، مارچ کے لیے کسی کی فنڈنگ کی بھی ضرورت نہیں، چار روز قبل جمعیت کے ایک اہم رہنما نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکتیس لاکھ افراد نے شرکت کے لیے فارم بھرا ہے اور اس مارچ کی مد میں ہر ایک سے صرف ایک سو روپے مانگے گئے تھے اور اگر صرف سو روپے کا ہی حساب لگایا جائے تو پھر اکتیس کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے۔
مولانا بیٹنگ کے لیے تیار ہیں، اس بار وہ فرنٹ پر بیٹنگ کرنا چاہتے ہیں، پریکٹس بھی بھرپور کررہے ہیں اب یہ وقت بتائے گا کہ وہ چھکے مارتے ہیں یا میچ سے قبل انجرڈ ہوجاتے ہیں، لیکن ایک بات واضح ہے جس طرح کی صورتحال ہے اشارے اچھے نہیں ہیں۔

Saturday, 12 October 2019

Shah Abdul Latif Bhittai Annual Urs

بھٹ کا بھٹائی 

بھٹ شاہ کی سرزمین کو ایک بار پھر سجایا دیا گیا ہے، شاہ سے منسوب تمام مقامات کی بھی خصوصی تزئین و آرائش کی گئی ہے جس سے پورا علاقہ بقع نور بنا ہوا ہے، اس سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اپنے کلام سے لوگوں کی نظروں سے فریب کے پردہ چاک کر کے اپنے کلام سے معرفت، محبت اور اخوت کا پیغام  عام کرکے انہیں حقیقی عشق سے روشناس کروانے والے بزرگ حضرت
شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مسکن ہے۔
ہالا میں پیدا ہونے والے عبدالطیف جسے دنیا شاہ عبدالطیف بھٹائی کے نام سے جانتی ہے دنیا سے رخصت ہونے کے276  سال بعد بھی اپنے کلام کے ذریعے زندہ ہیں، آج بھی بھٹ شاہ میں روزانہ کی بنیاد پرشاہ کے  سیکڑوں مرید شاہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد شاہ کے راگی فقیروں کے کلام پر جھومتے ہیں۔  
پیر  سے سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تین روزہ 276 واں سالانہ عرس شایان شان طریقے سے شروع ہوجائے گا، اس ضمن میں سندھ حکومت  کی جانب سے عرس کے پہلے روز عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی ۱۰۱۱ھ بمطابق ۹۸۶۱ء کو ضلع حیدرآباد کے تعلقہ ہالا میں پیدا ہوئے، والد کا نام سید حبیب تھا، جو کہ علاقہ میں تقوی اور پرہیز گاری کے لئے مشہور تھے اور قریب و جوار کے علاقوں میں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔شاہ عبدالطیف کی والدہ کا تعلق بھی سادات خاندان کے علمی گھرانے سے تھا، پانچ سال کی عمر میں شاہ عبدللطیف کو آخوند نور محمد کی علمی درسگاہ میں داخل کیا گیا، روایت ہے کہ شاہ عبدالطیف نے الف سے آگے پڑھنے سے انکار کردیا تھا لیکن شاہ صاحب کے کلام میں انکی علمی کوششوں کا عمل دخل نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام شاہ جو رسالو کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ  شاہ صاحب کو علم سے بخوبی واقفیت تھی، شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ میں فارسی اور عربی کا دور دورہ تھا اور شاہ صاحب کو سندھی کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور متعدد علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی اور ان زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت تھی۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام میں عربی اور فارسی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے، نوجوانی میں اس زمانے کے
انقلابات نے بھی شاہ عبدللطیف کو بہت متاثر کیا۔
شاہ صاحب کے کلام میں محبت، وحدت اور اخوت کا پیغام ہے، شاہ صاحب کا مطالعہ اتنا گہرہ تھا کہ اپنے آس پاس جو دیکھا، جو محسوس کیا اسے اپنے شعر
کے قالب میں ڈھال لیا۔
عشق مجازی کے پردے میں عشق حقیقی کی چنگاری دل میں بھڑکی شاہ صاحب کی شاعری میں والہانہ روحانی کیفیت، تصوف سے گہری شاعری میں شاہ صاحب کے مخاطب عوام ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں انسان کو مالک حقیقی کی یاد دلائی ہے۔
شاہ جو رسالو شاہ عبدالطیف بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے جسے ایک روایت کے مطابق شاہ صاحب نے کرار جھیل کے کنارے بیٹھ کر لکھا ہے۔ شاہ جو رسالو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کی سرزمین پر قرآن و حدیث کے بعد اسے سب سے زیادہ مانا جاتا ہے، شاہ جو رسالو میں اشعار اس طرح کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ شاعر  نے ان اشعار کو روحانی وجد کی حالت میں گایا ہے۔ شاہ صاحب کی پوری شاعری تلاش و جستجو کی شاعری ہے، شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں علاقے کی مشہور داستانوں مومل رانو، عمر ماروی، لیلا چینسر  اور سسی پنوں سے تمثیلات کے طور پر بھرپور استفادہ کیا ہے، شاہ عبداللطیف کی شاعری کا یہ حسن و کمال ہے کہ یہ موسیقی کی عصری روایت سے مضبوطی  کے ساتھ مربوط ہے  اور گائے جانے کے قابل ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری سے سندھی زبان
کو ہمیشہ کے لیئے زندہ کر دیا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا وصال تریسٹھ سال کی عمر میں ۴۱ صفر  ۵۶۱۱ھ بمطابق ۶۷۱۱ عیسوی کو بھٹ شاہ میں ہوا۔ اس زمانے کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ  صاحب کے مزار پر ایک دیدہ زیب مقبرہ تعمیر کروایا جو آج محمکہ اوقاف سندھ کے زیر اثر ہے اور سندھی تعمیرات کا ایک شاہکار ہے۔
شاہ عبدالطیب بھٹائی کا عرس کے موقع پر بھٹ شاہ میں ادبی کانفرنس میں نامور دانشور اورمحققین شاہ عبدالطیف بھٹائی کی طرززندگی پرمقالے پیش کرتے ہیں، ثقافتی لباس میں ملبوس مقامی افراد بھی ٹیبلوزکے ذریعے ہرسو ثقافتی رنگ بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
عرس پر بھٹ شاہ کے گھوڑا گراؤنڈ میں گھوڑوں کی بھی دوڑ ہوتی ہے جس میں غمدور، سندھی، دوگلے سمیت نایاب نسلوں کے گھوڑے حصہ لیتے ہیں  جبکہ دوسری طرف مختلف نسلوں کے بیلوں کی جوڑیوں کو بھی نہ صرف نمائش کیلئے
پیش کیا جاتا ہے بلکہ انہیں بھی تپتی ریت پر دوڑایا جاتا ہے۔
سندھ کے روایتی زور آزمائی کے کھیل ملاکھڑے کا  بھی ملک کا سب سے بڑا مقابلہ شاہ بھٹائی کے مسکن کے قریب ہی ہوتا ہے، جہاں پہلوان ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے زور آزماتے نطر آتے ہیں۔ شاہ جوباغ میں ثقافتی گوٹھ قائم کیاجاتا ہے جہاں دستکاری کے اسٹالز زائرین کواپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
سگھڑوں کی کچہری، لطیفی راگ، نئی جہت پر تحقیقی مقالے، خصوصی موسیقی محفل سمیت دیگر پروگرام  منعقد ہوتے ہیں جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے فنکار شاہ عبدالطیف بھٹائی  کے کلام کو گائیکی کے انداز  میں پیش کرکے انہیں خراج عقیدت  پیش کرتے ہیں۔