Sunday, 14 January 2018

Travelogue Sindh University to Sindh Assembly


سندھ اسمبلی کے باہر طلبہ اور اساتزہ کا گروپ فوٹو
سندھ اسمبلی کے باہر طلبہ اور اساتذہ کا گروپ فوٹو

سندھ یونی ورسٹی سے سندھ اسمبلی 

کہتے ہیں کہ صبح کے پہر دیکھے جانے والے خواب اکثر سچے ہوتے ہیں شاید میڈیا کمیونیکیشن کے طالبعلموں کو
سندھ اسمبلی لے جانے کا خواب بھی شعبے کے چیئرمین نے صبح کے وقت ہی دیکھا ہوگا، جو اُن کی محنت
اور جذبے کے تحت تعبیر کو پہنچا اور یہ خواب حقیقت کی شکل اختیار کر گیا، 13مارچ کا دن سندھ یونی ورسٹی کی تاریخ میں سنہری الفاظوں میں یاد رکھا جائے گا کہ اس دن سندھ یونی ورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار کسی شعبے کہ طالبعلموں کی ایک کثیر تعداد نے سندھ اسمبلی کا دورہ کیا، قصہ کچھ یوں ہے کہ سندھ یونی ورسٹی کا میڈیا اینڈ کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ دن بہ دن ترقی کے منازل طے کر رہا ہے اسی تناظر میں شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر بدر سومرو صاحب نے اپنے طالب علموں کو سندھ اسمبلی لے جانے کا ایک پروگرام ترتیب دیا تا کہ طلبہ وہاں جا کر پارلیمانی جرنلزم سے استفادہ حاصل کر سکیں اسی اثناء میں ضروری کاروائی کے بعد 13 مارچ کو سندھ اسمبلی کا پروگرام ترتیب دیا گیا ،تقریباََ 10 بجے سندھ یونی ورسٹی سے طالب علموں کی ایک کثیر تعداد چیئرمین ڈاکٹر بدر سومرو اور دیگر سینئر اساتزہ کی نگرانی میں سندھ یونی ورسٹی کی بلو پوائنٹ میں روانہ ہوئے ، اسمبلی جانے  کی خوشی ہر طالب علم کے چہرے پر خوب عیاں تھی جس کا بر ملا اظہار سفر کے دورن ڈانس اور دیگر طریقوں سے کیا گیا، تقریباََ1بجے سندھ اسمبلی پہنچے، سب طلبہ کو اُن کے انٹری کارڈ دیئے گئے سخت چیکنگ کے بعد اسمبلی کے اندر جانے کی اجازت ملی جنہیں آج تک صرف ٹیلی وزن اسکرین پر دیکھا تھا آج پہلی بار سامنے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا، خوشی کا اُس وقت ٹھکانہ نہیں رہا جب دورانِ اجلاس اسپیکر سندھ اسمبلی جناب آغا سراج خان دُرانی صاحب نے ہمارے ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین اور دیگر اساتذہ کا نام لے کر ہمیں ویلکم کیا اس موقع پر دیگر تمام میمبرانِ اسمبلی نے بھی ہاتھ ہلا کر ہمیں ویلکم کیا یہ ایسا موقع تھا جو کہ بھولے نہیں بھولے گا، تمام طالب علموں نے ان حسین لمحات کو اپنے موبائل کی آنکھوں میں قید کیا، سندھ اسمبلی کا سیشن ختم ہو نے کے بعد ہم سب ڈاکٹر بدر سومرو صاحب کے ساتھ سیکریٹری سندھ اسمبلی کے کمرے میں گئے جہاں اُنھیں ڈپارٹمنٹ کی شیلڈ ، شعور میگزین اور روشنی اخبار پیش کیا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ روشنی اخباراور شعور میگزین پاکستان کا وہ واحد اخباراور میگزین ہے جو TRILINGUAL یعنی   تین زبانوں میں نکلتا ہے جسے سیکریٹری صاحب نے خوب سراہا اس کے بعد طلبہ نے اسمبلی کے باہرپریس اراکین کے ساتھ وقت گزارا اور پارلیمانی جر نلزم کے حوالے سے معلومات اور اُن کے تجربے سے استفادہ کیا۔
سفر یہیں ختم نہیں ہوا سندھ اسمبلی کے بعد تمام طلبہ نے آرٹس کاؤنسل کراچی کا رُخ کیا جہاں ڈاکٹر ایوب شیخ اور کراچی آرٹس کاؤنسل کے صدر احمد شاہ صاحب کی طرف سے طلبہ اور اساتذہ کے اعزاز میں ایک پُر وقار عشائیہ دیا گیا ، جہاں  پر آرٹس کاؤنسل کے صدر احمد شاہ صاحب نے اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصے پہلے کراچی یونی  ورسٹی کا ایک وفد آرٹس کاؤنسل آیا تھا جس میں تقریباََ طالبات نے حجاب کیا ہوا تھا پر آج یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سندہ یونی  یورسٹی میں حقیقت اس کے بر عکس ہے اور یہاں کراچی یونی ورسٹی سے زیادہ شعور ہے، اُن کا مزید کہنا تھا کہ آرٹس کاؤنسل کراچی کے دروازے میڈیا کمیونیکیشن کے طالب علموں کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں ، آرٹس کاؤنسل کے عشائیے میں میڈیا  کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے ایک سابق استاد ڈاکٹر ہر بخش مکھیجانی نے بھی شرکت کی جنھیں طلبہ اپنے درمیان دیکھ کر پھولے نہیں سمائے اور تالیوں کی بھر پور گونج میں اُن کا استقبال کیا۔
اسکے بعد طلبہ نے کراچی پریس کلب کا رُخ کیا جہاں ایک سیشن میں شرکت کی اسکے بعد مشہور صحافی اورکالم نویس مظہر عباس  اور کراچی پریس کلب کے صدر اور دیگر عہدیداران کی طرف سے ایک ہائی ٹی سیشن کا انتظام کیا گیا جہاں پر تمام عہدیداران بشمول مظہر عباس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنی تیخی باتوں سے حاضرین کو خوب لطف اندوز کیا، اس موقع پر طالب علموں کو بھی بولنے کا موقع دیا گیا اور سوال و جوابات کا سیشن ہوا۔
کراچی پریس کلب کے دورے کے بعد اگلا پڑاؤ سندھ ٹی وی پر ڈالا گیا جہاں پر ریکارڈنگ، لائیو پروگرامنگ، لائیو نیوز ، ایڈیٹنگ اور دیگر طریقوں کے بارے میں خوب معلومات حاصل کی گئیں، ہر طالب علم کو سندھ ٹی وی کے  ہر سیکشن کا دورہ کرایا گیا اور بھر پور معلوموت فراہم کی گئیں۔
بے شک یہ سفر زندگی کا ایک بہترین سفر تھا جو شائد کبھی نہیں بھول پائینگے۔

Wednesday, 10 January 2018

اور زینب ہار گئی


اور زینب ہار گئی۔۔۔۔


زینب کو بھی شہید کہ دو ،دے دو اُس کی ماں کو دلاسے کے زینب شہید ہوئی ہے، کر لو جھوٹے وعدے ، لے لو ایک اور نوٹس، آخر کب تک جھوٹ کی لاٹھی پکڑے رکھو گے، کیا قصور تھا زینب کا کیا قصور تھا اُس کے گھر والوں کا صرف یہ کہ وہ قصور کی رہائشی ہے جہاں اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنی زینب قتل کر دی گئیں ، نہ جانب کتنی زینب سنگسار کی گئیں ، کیا تمھیں نہیں یادعمان فاطمہ، کیا تمھیں نہیں یاد فوزیہ ، کیا تمھیں نہیں یاداسمہ، تمھیں تو نور فاطمہ اور لائبہ بھی یاد نہیں ہونگی جو اس ہی شہر کی رہائشی تھیں اور سنگسار کرکے اسی بے دردی سے قتل کر دی گئیں ، ایک سال کے دوران اس طرح کے بارہ واقعات ہوئے ، ایک ہی عمر کی لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا،اسی شہر میں ہوئے نوٹس پر نوٹس لئے گئے، تین ڈی پی او بدلے گئے پر کیا ہوا کچھ نہیں ۔۔۔ کسی نے بھی کیا خوب کہا ہے یہاں سب بکتا ہے تم دام تو بولو ۔۔
زینب ایک پھول جیسی بچی نجانے کتنے خواب تھے اُس کی آنکھوں میں کیا کیا سوچا ہو گا اُس کے ماں باپ نے اُس کے لئے، بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں ، گھر مہکتا ہے بچوں سے، نہ جانے کون سے انسان کی شکل میں بھیڑئیے ہیں ، کیسی حوس ہے یہ جو ان معصوم پھولوں کو کچل رہی ہے، زینب کے قتل کے دو زمیدار ہیں ایک وہ ظالم بھیڑئیے جنہوں نے زینب کو قتل کیا دوسرے تم ظالم حکمران جو زینب کو سنگسار ہونے سے نہ روک سکے، پاکستان جو اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر بنا تھا، کہاں گیا تمھارا وہ نظریہ، یاد نہیں تمہیں کہ حضرت عمر کے دل کو خوف اُن کا راتوں کو اس ڈر سے گھومنا کہ کوئی بھوکا نہ سوجائے، کہیں کوئی جانور ٹھوکر لگنے سے بھی زخمی نہ ہو جائے، سوال ہو گا تم سے بھی ایک ایک زینب کا کیوں نہیں بچا سکے زینب کو ، ایک ایک کا جواب دینا ہوگا، خدارا اب بھی وقت ہے جاگ جاؤ اس زینب کو تو نہ بچاسکے اور نہ جانے کتنی زینب ایسی ہیں جنہیں یہ حوس کے پجاری نشانہ بنانا چاہتے ہیں ، بچالو اُنھیں ۔۔۔۔

Tuesday, 2 January 2018

Thank You Trump


شکریہ ٹرمپ (ایک معصومانہ سوال؟ ۔۔۔


ٹرمپ صاحب جسے شاید تقریباََ پوری دنیا ہی غلط گردانتی ہے پر آج میں سلام پیش کرتا ہوں ٹرمپ صاحب کوشکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُن کی ایک ٹوئیٹ نے برسوں سے سوئی اور غلام بنی ہوئی قوم کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے، جی ہاں یہاں بات ہو رہی ہے مسلم دنیا کے واحد ایٹمی پاور ملک پاکستان کی جو ایک طویل عرصے تک ایسے ملک کا غلام بنا رہا جس نے اُسے ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا یہاں تک کہ کئی مواقع پر تو ٹھوکر مار کر گرانے کی بھی کوشش کی اور یہ کوششیں مختلف صورتحال میں ابھی تک جاری ہیں اور پاکستان جیسا ایٹمی پاور رکھنے والا ملک سب کچھ سمجھنے کہ باوجود با خوشی غلامی کرتا رہا حلانکہ شمالی کوریا جیسا ایک ڈھائی انچ کا ملک امریکہ کے ناک میں دم کر کے رکھتا ہے اور پاکستان اُس کے ہر ڈومور کے مطالبے پر سر تسلیم خم کر دیتا ہے، اب وقت ہے کہ حکمران اور قوم جاگ جائے ، اب وقت ہے کہ کشکول توڑ دیا جائے، یہی امریکہ ہے کہ جس کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر کسی اور ملک کی جنگ ہم اپنے ملک میں کھینچ لائے ہزاروں فوجی ، بے قصور بچے ،بوڑھے، خواتین، مرد اور نہ جانے کتنی انمول شخصیات اس خانہ جنگی کا شکار ہو گئے، اور ہم یہ سوچ کر حقیقت سے عاری ہو جاتے ہیں کہ سب شہید ہو گئے ، کیا یہ شہادت ہے؟شہادت کہتے کسے ہیں؟صاحب جی شہادت لفظ دل کو بہلانے کے لئے تو بہت اچھا ہے پر جب آنکھوں پر پڑے پردے ہٹا دئیے جائیں تو لگ پتا جا تا ہے کوئی ہے ہمت والا توجھانک کر دیکھے پشاور اے پی ایس اسکول میں ہونے والی دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے پھولوں جیسے معصوم بچوں کے والدین کی آنکھوں میں ۔۔۔ 
کہ ایک ہی سوال نظر آئے گا کہ اُن کے بچے اسکول گئے تھے یا بارڈر پر؟ پڑھنے گئے تھے یا جنگ لڑنے؟ کوئی پوچھے سہون شریف دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کہ لواحقین سے کہ اُن کے پیارے سہون شریف اپنے قلبی سکون کے لئے گئے تھے یا ٹکڑوں میں کٹ جانے؟ کوئی پوچھے داتا دربار، نشتر پارک، لیاقت باغ، کارساز میں ہونے والے دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے۔۔۔۔ 
چلو مان لیتے ہیں کہ یہ سب شہادتیں تھیں تو لاہور یوحناآباد میں جو معصوم لوگ جاں بحق ہوئے کیا وہ بھی شہید تھے؟ کیوں کہ میرے نظرئیے کے مطابق تو شہید صرف مسلمان ہی ہوتا ہے تو ان معصوم لوگوں کے لواحقین دل کو بہلانے کے لئے کونسا لفظ استعمال کریں؟ یہ تو صرٖ ف چند باتیں ہیں مسلم دنیا کے واحد ایٹمی پاور ملک کی تاریخ تو ایسے واقعوں سے بھری پڑی ہے ، یہ سب اُس ہی خانہ جنگی کا نتیجہ ہے کہ جس میں پاکستانی قوم بنا سوچے سمجھے ایک طویل عرصے تک پھنسی رہی، اور اب ایک ٹوئیٹ میں سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں ، اب وقت ہے فیصلے کرنے کا ، کیا ہوگا ملک کی معیشت تباہ ہو گی؟ دنیا بھر میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اقبال نے شاید ایسے ہی موقعوں کے لئے کہا تھا کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔