Monday, 14 October 2019

Maulana Ka March

مولانا کا مارچ

مولانا فضل الرحمن  جسے بارہواں کھلاڑی کہا جاتا ہے وہ اب فرنٹ فٹ پر آچکے، جمعیت کے اعلانیہ  اسلام آباد مارچ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مولانا کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں، مولانا فضل الرحمٰن سینئر سیاست دان ہیں، ان کو ادراک ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پاکستان میں کس طرح کام کرتے ہیں اور ان کی کیمسٹری کیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) انکے مارچ میں شرکت کریں یا نہ کریں لیکن وہ اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں، دونوں پارٹیاں جانتی ہیں تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہونے والے کو سیاسی
حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔
جمعیت کے مطابق آزادی مارچ ستائیس اکتوبرکوصبح دس بجے ملک کے صوبائی دارلحکومتوں سے روانہ ہوگا او ر اکتیس اکتوبر کو سب ڈی چوک اسلام آباد پر اکھٹا ہوں گے، جمعیت علمائے اسلام کی چاروں صوبوں کی تنظیموں نے مولانا فضل الرحمان کو اپنے صوبے سے مارچ کی قیادت کی درخواست کی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان سندھ سے نکلنے والے آزادی مارچ کی قیادت کریں گے۔سندھ سے نکلنے والی مارچ کی قیادت سے مولانا کو دو فائدے ہیں ایک تو سندھ کی صوبائی حکومت نے مولانا کو بھرپور تعاون کا نہ صرف یقین دلایا ہے بلکہ ہر طرح کی مدد کا بھی کہا ہے، سندھ کی جگہ کسی اور صوبے سے مارچ کی قیادت میں امکانی طور پر مولانا کو دو نقصان ہوسکتے ہیں کیونکہ سندھ کے علاوہ دیگر دو صوبوں میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حمایت یافتہ جماعت کی حکومت ہے تو مارچ کو بھرپور طریقے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی اوردوسرا یہ کہ مولانا کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے، سندھ سے نکلنے کی صورت میں ایک تو مولانا کو مارچ سے قبل سندھ حکومت کی جانب سے گرفتاری  کا خطرہ نہیں دوسرا یہ کہ پنجاب میں داخل ہونے سے قبل مارچ ایک بھرپور زور حرکت میں آچکا ہوگا۔
مولانا کے مارچ کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، حکومتی بوکھلاہٹ بھی اس ہی قدر بڑھ چکی ہے، وفاقی وزراء فواد چوہدری ہو یا فردوس عاشق اعوان، وزیراعلی خیبر پختونخواہ یا ترجمان پنجاب ہوں یا پھر گورنر سندھ سمیت دیگر اراکین اسمبلی ہر کسی پر مولانا کا مارچ سوار ہے۔
عوام بھی  بلکل نہیں تو کچھ کچھ حکومتی پالیسی سے نالاں ہونا شروع ہوگئے ہیں، حکومتی جماعت نے عوام کو الیکشن سے قبل سہانے خواب دکھائے تھے، بڑے بڑے وعدے کیے تھے، لیکن وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہوجائیں۔
مولانا کہتے ہیں کہ  وزیراعظم نے قوم کو کٹے، مرغی اور انڈے تک پہنچانے کے بعد اب لنگر خانے تک پہنچا دیا ہے، اگر یہ وزیراعظم مسلط رہا تو خدشہ ہے کہ یہ کہیں قوم کو یتیم خانے تک نہ پہنچا دیں۔جمعیت علماء اسلام کے نظریے کے مطابق  ان کی جانب سے سول نافرمانی کی کال یا گیس و بجلی کے بل نہیں جلائے جائیں گے لیکن وہ اس وقت تک اسلام آباد میں موجود رہیں گے جب تک یہ حکومت گھر نہیں چلی جائے گی۔ مولانا دو ٹوک انداز میں کہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی ملکی ادارے سے تصادم نہیں چاہتے ہیں، اداروں کو بھی نیوٹرل رہنا چاہیے۔
مولانا کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں اور یہ ایک حقیقیت ہے، مارچ کے لیے کسی کی فنڈنگ کی بھی ضرورت نہیں، چار روز قبل جمعیت کے ایک اہم رہنما نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکتیس لاکھ افراد نے شرکت کے لیے فارم بھرا ہے اور اس مارچ کی مد میں ہر ایک سے صرف ایک سو روپے مانگے گئے تھے اور اگر صرف سو روپے کا ہی حساب لگایا جائے تو پھر اکتیس کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے۔
مولانا بیٹنگ کے لیے تیار ہیں، اس بار وہ فرنٹ پر بیٹنگ کرنا چاہتے ہیں، پریکٹس بھی بھرپور کررہے ہیں اب یہ وقت بتائے گا کہ وہ چھکے مارتے ہیں یا میچ سے قبل انجرڈ ہوجاتے ہیں، لیکن ایک بات واضح ہے جس طرح کی صورتحال ہے اشارے اچھے نہیں ہیں۔

Saturday, 12 October 2019

Shah Abdul Latif Bhittai Annual Urs

بھٹ کا بھٹائی 

بھٹ شاہ کی سرزمین کو ایک بار پھر سجایا دیا گیا ہے، شاہ سے منسوب تمام مقامات کی بھی خصوصی تزئین و آرائش کی گئی ہے جس سے پورا علاقہ بقع نور بنا ہوا ہے، اس سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اپنے کلام سے لوگوں کی نظروں سے فریب کے پردہ چاک کر کے اپنے کلام سے معرفت، محبت اور اخوت کا پیغام  عام کرکے انہیں حقیقی عشق سے روشناس کروانے والے بزرگ حضرت
شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مسکن ہے۔
ہالا میں پیدا ہونے والے عبدالطیف جسے دنیا شاہ عبدالطیف بھٹائی کے نام سے جانتی ہے دنیا سے رخصت ہونے کے276  سال بعد بھی اپنے کلام کے ذریعے زندہ ہیں، آج بھی بھٹ شاہ میں روزانہ کی بنیاد پرشاہ کے  سیکڑوں مرید شاہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد شاہ کے راگی فقیروں کے کلام پر جھومتے ہیں۔  
پیر  سے سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تین روزہ 276 واں سالانہ عرس شایان شان طریقے سے شروع ہوجائے گا، اس ضمن میں سندھ حکومت  کی جانب سے عرس کے پہلے روز عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی ۱۰۱۱ھ بمطابق ۹۸۶۱ء کو ضلع حیدرآباد کے تعلقہ ہالا میں پیدا ہوئے، والد کا نام سید حبیب تھا، جو کہ علاقہ میں تقوی اور پرہیز گاری کے لئے مشہور تھے اور قریب و جوار کے علاقوں میں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔شاہ عبدالطیف کی والدہ کا تعلق بھی سادات خاندان کے علمی گھرانے سے تھا، پانچ سال کی عمر میں شاہ عبدللطیف کو آخوند نور محمد کی علمی درسگاہ میں داخل کیا گیا، روایت ہے کہ شاہ عبدالطیف نے الف سے آگے پڑھنے سے انکار کردیا تھا لیکن شاہ صاحب کے کلام میں انکی علمی کوششوں کا عمل دخل نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام شاہ جو رسالو کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ  شاہ صاحب کو علم سے بخوبی واقفیت تھی، شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ میں فارسی اور عربی کا دور دورہ تھا اور شاہ صاحب کو سندھی کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور متعدد علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی اور ان زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت تھی۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام میں عربی اور فارسی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے، نوجوانی میں اس زمانے کے
انقلابات نے بھی شاہ عبدللطیف کو بہت متاثر کیا۔
شاہ صاحب کے کلام میں محبت، وحدت اور اخوت کا پیغام ہے، شاہ صاحب کا مطالعہ اتنا گہرہ تھا کہ اپنے آس پاس جو دیکھا، جو محسوس کیا اسے اپنے شعر
کے قالب میں ڈھال لیا۔
عشق مجازی کے پردے میں عشق حقیقی کی چنگاری دل میں بھڑکی شاہ صاحب کی شاعری میں والہانہ روحانی کیفیت، تصوف سے گہری شاعری میں شاہ صاحب کے مخاطب عوام ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں انسان کو مالک حقیقی کی یاد دلائی ہے۔
شاہ جو رسالو شاہ عبدالطیف بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے جسے ایک روایت کے مطابق شاہ صاحب نے کرار جھیل کے کنارے بیٹھ کر لکھا ہے۔ شاہ جو رسالو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کی سرزمین پر قرآن و حدیث کے بعد اسے سب سے زیادہ مانا جاتا ہے، شاہ جو رسالو میں اشعار اس طرح کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ شاعر  نے ان اشعار کو روحانی وجد کی حالت میں گایا ہے۔ شاہ صاحب کی پوری شاعری تلاش و جستجو کی شاعری ہے، شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں علاقے کی مشہور داستانوں مومل رانو، عمر ماروی، لیلا چینسر  اور سسی پنوں سے تمثیلات کے طور پر بھرپور استفادہ کیا ہے، شاہ عبداللطیف کی شاعری کا یہ حسن و کمال ہے کہ یہ موسیقی کی عصری روایت سے مضبوطی  کے ساتھ مربوط ہے  اور گائے جانے کے قابل ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری سے سندھی زبان
کو ہمیشہ کے لیئے زندہ کر دیا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا وصال تریسٹھ سال کی عمر میں ۴۱ صفر  ۵۶۱۱ھ بمطابق ۶۷۱۱ عیسوی کو بھٹ شاہ میں ہوا۔ اس زمانے کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ  صاحب کے مزار پر ایک دیدہ زیب مقبرہ تعمیر کروایا جو آج محمکہ اوقاف سندھ کے زیر اثر ہے اور سندھی تعمیرات کا ایک شاہکار ہے۔
شاہ عبدالطیب بھٹائی کا عرس کے موقع پر بھٹ شاہ میں ادبی کانفرنس میں نامور دانشور اورمحققین شاہ عبدالطیف بھٹائی کی طرززندگی پرمقالے پیش کرتے ہیں، ثقافتی لباس میں ملبوس مقامی افراد بھی ٹیبلوزکے ذریعے ہرسو ثقافتی رنگ بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
عرس پر بھٹ شاہ کے گھوڑا گراؤنڈ میں گھوڑوں کی بھی دوڑ ہوتی ہے جس میں غمدور، سندھی، دوگلے سمیت نایاب نسلوں کے گھوڑے حصہ لیتے ہیں  جبکہ دوسری طرف مختلف نسلوں کے بیلوں کی جوڑیوں کو بھی نہ صرف نمائش کیلئے
پیش کیا جاتا ہے بلکہ انہیں بھی تپتی ریت پر دوڑایا جاتا ہے۔
سندھ کے روایتی زور آزمائی کے کھیل ملاکھڑے کا  بھی ملک کا سب سے بڑا مقابلہ شاہ بھٹائی کے مسکن کے قریب ہی ہوتا ہے، جہاں پہلوان ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے زور آزماتے نطر آتے ہیں۔ شاہ جوباغ میں ثقافتی گوٹھ قائم کیاجاتا ہے جہاں دستکاری کے اسٹالز زائرین کواپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
سگھڑوں کی کچہری، لطیفی راگ، نئی جہت پر تحقیقی مقالے، خصوصی موسیقی محفل سمیت دیگر پروگرام  منعقد ہوتے ہیں جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے فنکار شاہ عبدالطیف بھٹائی  کے کلام کو گائیکی کے انداز  میں پیش کرکے انہیں خراج عقیدت  پیش کرتے ہیں۔

Monday, 30 September 2019

PS 11 Bye Election

پی ایس 11 الیکشن، چاپلوسی جیت گئی

چاپلوسی یا خوشامدی ایک ایسا لفظ ہے جس سے بڑے بڑے شیر ڈھیر ہوجاتے ہیں، چاپلوس شخص بہت سے قابل اور لائق افراد  کا حق مارتے ہوئے ایک سیڑھی کے دو ٹپے ایک ساتھ پھلانگتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے، حقیقت میں چاپلوسی ایک غلط ترین عمل ہے، ایک تو اس سے دوسرے شخص کی حق تلفی ہوتی ہے تو دوسرا کسی لائق کی جگہ نالائق بندہ غالب ہوجاتا ہے۔
یہی کچھ صورتحال سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس گیارہ (لاڑکانہ) کے ہونے والے ضمنی انتخابات میں سامنے آرہی ہے، پی ایس گیارہ کے دو ہزار اٹھارہ کو ہونے والے عام انتخابات میں جی ڈی اے کے حمایت یافتہ معظم علی خان نے 32178 ووٹ حاصل کرکے  پیپلز پارٹی سندھ کے صوبائی صدر نثار احمد کھوڑو کی صاحبزادی ندا کھوڑو کو شکست دی تھی، مذکورہ الیکشن میں ندا کھوڑو 21811 ووٹ حاصل کرسکی تھیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عام انتخابات میں نثار کھوڑو نے اس نشست پر فارم جمع کروائے تھے جو کہ اپنی شادی سے متعلق غلط معلومات دینے پر مسترد کردیے گئے تھے جس کے بعد ان کی صاحبزادی ندا کھوڑو نے اس نشست سے انتخاب لڑا اور دس ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست کھائی، لیکن پارٹی کی کرم نوازی سے ندا کھوڑو خواتین کی مخصوص نشست پر اسمبلی کی رکن بن گئی، عام انتخابات کے بعد ندا کھوڑو نے معظم عباسی کی جانب سے اپنے اثاثہ جات صحیح طرح ظاہر نہ کرنے پر درخواست دائر کی، جس پر سپریم کورٹ نے مذکورہ نشست پر دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم جاری کیا۔
بات شروع چاپلوسی سے ہوئی تھی،اب واپس اس جانب آتے ہیں، پی ایس گیارہ لاڑکانہ ٹو پر دوبارہ الیکشن شیڈول جاری ہوا، میڈیا پر تواتر سے خبریں آئیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو اس نشست سے الیکشن لڑیں گی، پارٹی میں موجود کچھ سینیئر رہنماؤں کے مطابق  اگر عام انتخابات میں لیاری والی نشست بلاول بھٹو جیت جاتے تو وہاں سے ضمنی انتخاب میں آصفہ نے الیکشن لڑنا تھا، خیر یہ تو ممکن نہ ہوسکا لیکن پی ایس گیارہ میں دوبارہ انتخابات کے اعلان کے بعد ایک بار پھر آصفہ بھٹو خبروں کی زینت بنیں، یہاں تک کہ انہیں الیکشن جیتنے کے بعد وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی نیب کے ہاتھوں ممکنہ گرفتاری کے بعد وزیر اعلی سندھ کے عہدے پر براجمان کرنے کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں، لیکن پارٹی نے ٹکٹ کا اعلان کیا اور قرعہ فعال جمیل سومرو
کے نام نکلا۔ 
جیسا کہ بات شروع چاپلوسی سے ہوئی تھی تو اب آتے ہیں جمیل سومروپر، جمیل سومرو بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ سائے کی طرھ چپکے رہتے ہیں، پارٹی کے جیالوں سے لے کر مرکزی عہدیدار، صوبائی عہدیدار، ذیلی ونگ کے رہنماؤں اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کے درمیان کوئی دیوار ہے تو وہ جمیل سومرو ہے، پی ایس گیارہ کے الیکشن ٹکٹ سے قبل جمیل سومرو کو بلاول کے پیچھے کھڑا ہوا دیکھا جاتا تھا، اسے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اب چاپلوسی اتنی کامیاب ہوئی کہ  یہ بندہ ٹکٹ لے اڑا۔
پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کے مطابق جمیل سومرو بلاول بھٹو پر اتنے غالب ہیں کہ ان کی  مرضی کے بغیر کوئی بلاول سے ملاقات نہیں کرسکتا، جمیل سومرو نے بلاول کے کچھ دیگر اسسٹنٹ کے ساتھ مل کر ایک باقائدہ لابی بنا رکھی ہے۔
پیپلز پارٹی جسے عام ورکر کی جماعت کہا جاتا تھا وہ اب کچھ افراد کی مٹھی میں بند ہوکر رہ گئی ہے، جمیل سومرو بھی ان کچھ افراد میں شامل ہے،  پارٹی میں قائدین اور جیالوں میں فاصلے خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں، جیالے جمیل سومرو کی نامزدگی سے خوش نہیں ہیں، سوشل میڈیا پر اس متعلق پوسٹیں تواتر سے گردش کررہی ہیں، جمیل سومرو کے حمایتی انہیں ڈیفیند کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان افراد کی جانب سے جمیل سومرو کی چاپلوسی کرتے ہوئے سامنے والے کو مغلظات بھی بکی جارہی ہیں۔
گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سے  ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال جاری تھا کہ پی ایس گیارہ  کا ذکر چھڑا تو مذکورہ رہنما جمیل سومرو کی نامزدگی پر سخت نالاں نظر آئے، پیپلز پارٹی کے اتار چڑھاؤ کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے غم ذدہ لہجے میں کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی، جیالوں کے درمیان رہنا چاہتے ہیں، جیالوں کے درمیان آنے والی دوریاں ختم کرنا چاہتے ہیں، اور یہ جیالے ہی ہیں جو انہیں وزیراعظم بنائیں گے لیکن جمیل سومرو جیسے کچھ عناصر نے بلاول بھٹو کو سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر جیالوں سے دور کررکھا ہے۔
پی ایس گیارہ (لاڑکانہ ٹو) میں ٹوٹل 152614 ووٹرز ہیں جن میں 83016 مرد جبکہ 69598 خواتین ووٹرز ہیں اور دس ہزار سے زائد ووٹوں سے دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں مذکورہ نشست ہارنے والی پیپلز پارٹی کو جمیل سومرو کی نامزدگی کے بعد اسے جیتنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا اور اب  وقت ہی بتائے گا کہ آیا چاپلوسی کامیاب ہوتی ہے یا پارٹی  کو جمیل سومرو کی نامزدگی کی صورت میں سبکی اٹھانی پڑے گی۔

Tuesday, 24 September 2019

Dog Bite Cases & Sindh First Anti Vanom Laboratory



ویکسین  نہ ملنے سے مرتے بچے اور سندھ کی واحد اینٹی ڈوگ بائٹ  وینوم لیبارٹری

خدمت میں سب سے آگے کا نعرہ لگانے والی سندھ سرکار کی انتظامی نا اہلی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال سامنے آرہی ہے، کہیں پل نہ ہونے سے بچے جانیں داؤ پر لگا کر اسکول جارہے ہیں، مرکے بھی چین نہ آنے کے مترادف میتوں کو تھرموپول شیٹ پر رکھ  کر نہر پار کروائی جارہی ہیں،  ٹڈی دل کے حملوں سے لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، بارشوں کے بعد سندھ بھر کی سڑکوں کی تباہی کی صورتحال بھی سامنے ہے، کراچی کے کچرے پر سیاست ہورہی ہے، تو وہیں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے سے بھی بچے مرنا شروع ہوگیے ہیں، بے نظیر کے لاڑکانہ میں بچہ کتے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے سے تڑپ  تڑپ کر مرگیا، لیکن بے نظیر کے ہی صوبے میں موجود کروڑوں روپے مالیت سے تیار

کی گئی لیبارٹری کو فعال نہیں کیا جاسکا ہے۔
پاکستان اینٹی ڈاگ بائٹس ویکسین بھارت سے برآمد کرتا تھا جسے ماہ فروری میں پاک بھارت کشیدگی کے باعث روک دیا گیا جس کے بعد سندھ بھر میں ویکسین کی کمی پیدا ہو گئی، صورتحال اس قدر خطرناک ہوگئی کہ ویکسین کی کمی کے باعث بچوں نے اپنی ماؤں کی گود میں تڑپ تڑپ کر مرنا شروع کردیا ہے۔
سترہ ستمبر کے روز شکارپور کے رہائشی دس سالہ  میر حسن کو اے آر وی ویکسین نہ ملی اس کی ماں اسے اٹھائے در در بھٹکتی رہی جس کے بعد وہ  کشمنر آفس لاڑکانہ کے باہر زمین پر اپنے لخت جگر کو لے کر بیٹھ گئی اور بچے کی زندگی کی بھیک مانگتی رہی مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، وہ بچہ اپنی ماں کی گود میں ہی تڑپ تڑپ کر مرگیا، واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس نے دیکھا
لرز کر رہ گیا۔
خدمت میں سب سے آگے کا نعرہ لگانے والی سندھ سرکار  کے اپنے آبائی شہر لاڑکانہ جسے پیرس کہا جاتا ہے وہیں ایک دس سالہ معصوم بچہ تڑپ تڑپ کرمرگیا۔ 
ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں سال رواں کے ابتدائی 8 ماہ میں ایک لاکھ 22 ہزار 566 افراد سگ گزیدگی کا شکار ہوچکے ہیں جن میں ہر عمر کے شہری، خواتین، بچوں اور بزرگ شامل ہیں۔سگ گزیدگی کے نتیجے میں اب تک 13 قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ضلع شہید بے نظیرآباد (نواب شاہ) کے شہر سکرنڈ میں سانپ اور کتے کے کاٹے سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرنے والے سندھ کی واحد اور پاکستان کی دوسری اینٹی اسنیک وینوم اور اینٹی ڈوگ بائٹ لیبارٹری  بھی موجود ہے، جسے سندھ حکومت اب تک مکمل طور پر فعال ہی نہیں کرسکی
ہے۔
مذکورہ  لیبارٹری پہلے تھرپارکر میں قائم ہونا تھی بعدازاں کچھ مسائل کے باعث اسے سکرنڈ میں پئی فاریسٹ کے قدیمی جنگلات کے قریب قائم کیا گیا، سال دوہزار بارہ میں اس لیبارٹری کا کام پایہ تکمیل تک پہنچا جس کے بعد اسی سال لیبارٹری میں اسٹاف کی بھرتی کی گئی اور چند ماہ کام کرنے کے بعد لیبارٹری میں کام رک گیا اور اس وقت سوائے لوئر اسٹاف کے  لبیارٹری میں کوئی موجود نہیں ہے جس سے کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کی جانی والی عالی شان بلڈنگ اور ادویات بنانے والی مہنگی ترین مشینری خراب ہورہی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق  پاکستان میں سانپوں کے کاٹنے کے سالانہ پچھتر ہزارکیس فائل ہوتے ہیں جن میں سے پندرہ ہزار سالانہ سندھ میں لوگ سانپ سے ڈسے جاتے ہیں اور تقریباً سات ہزار پانچ سو  مریض سانپ کے کاٹنے کے بعد صحیح طرح سے اسکی ویکیسن حاصل کرپاتے ہیں جبکہ  زیادہ تر دیسی اور گھریلو ٹوٹکے
استعمال کرتے ہیں جس سے بیشتر قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔
سکرنڈ کے رہائشی محمد یعقوب  منگریو کی جانب سے  مذکوہ لیبارٹری کے غیر فعال ہونے پر سندھ ہائی کورٹ میں   پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے،  دو اگست دو ہزار انیس کو پٹیشن کی سماعت کے دوران عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو طلب کرتے ہوئے  لیبارٹری کو فنڈز فراہم کرکے فعال کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت میں سماعت سے قبل چیف سیکریٹری سندھ نے اینٹی اسنیک وینوم اور اینٹی ڈوگ بائٹ لیبارٹری کا اچانک دورہ کیا تھا، دورے کے دوران لیبارٹری کے انچارج نعیم قریشی کی جانب سے انہیں لیبارٹری کا دورہ کروایا گیا اورلیبارٹری میں تیار ہونے والی اسنیک وینوم بنانے کے عمل سے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ لیبارٹری کے مکمل طور پر فعال  نہ ہونے کے اسباب بتائے گئے تھے، اس کے باوجود بھی لیبارٹری کو فعال نہیں کیا جاسکا ہے۔

از قلم: وارث بن اعظم

Monday, 16 September 2019

Aik Sath Teen Lashain (Mirpurkhas Waqia)


ایک ساتھ تین لاشیں، کون ذمیدار ہے  میرپورخاص واقعے کا

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، گزشتہ ہفتے کے روز ہوا سندھ کے ضلع میرپورخاص میں ایک اندوہناک واقعہ، واقعہ ایسا کہ انسانیت ہی رو پڑے جس نے سنا روپڑا، جذباتی ہوگیا، واقعہ ہی کچھ ایسا تھا، سندھ کے ایک بڑے شہر میرپورخاص کے سول اسپتال میں دو سالہ بچہ موہن ہلاک ہوگیا تھا، بچے کے ورثاء کی رہائش شہر سے کچھ فاصلے پر قائم گاؤں اصغر درس میں تھی، بچہ تو ہلاک ہوگیا تھا اب اس کی میت گھر لے جانا تھی سو اس کا والدکیول بھیل اور چچا رمیش بھیل ایمبولینس کی تلاش میں لگ گئے کہ بچے کی میت کو گھر لے جایا جائے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھٹکتے رہے، اسپتال انتظامیہ نے پہلے تو ایمبولینس دینے سے صاف انکار کردیا، پھر ایمبولینس ڈرائیور کے سامنے متاثرہ افراد نے ہاتھ پاؤں جوڑے تو جواب دیا گیا کہ  ایمبولینس کے فیول کی مد میں دو ہزار دیے جائیں، یہ غریب لوگ تھے کچے گھر میں رہتے تھے، بچے کو پتا نہیں کس طرح علاج کے لیے سرکاری اسپتال لائے تھے، کس طرح دوائیاں خرید کر اس کا علاج کروارہے تھے، ان لاچار افراد کے پاس دو ہزار نہیں تھے انہوں نے ہاتھ پاؤں جوڑے لیکن ایمبولینس نہ دی گئی، مجبور ہوکر یہ لوگ بچے کی لاش کو  ایک کپڑے میں ڈھانپ کر موٹر سائیکل پر ہی اپنے گاؤں کی جانب روانہ ہوئے، یہ گاؤں کی طرف نکلے ہی تھے، ان کے دل معصوم بچے کے انتقال کے بعد ویسے ہی غمگین تھے یہ والد اور چچا سوچ رہے تھے کہ بچے کی ماں کا سامنا  کیسے کریں گے، ان کے ذہن میں تدفین کے مراحل میں ہونے والے اخراجات کی رقم بھی گھوم رہی تھی اسی اثناء میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا، میرپورخاص کھپرو روڈ پر کاٹن فیکٹری کے قریب تیز رفتار مزدا ٹرک ان پر چڑھ دوڑا، حادثے میں  بچے کے والد اور چچا دونوں ہلاک ہوگئے، انتقال کرجانے والا بچہ بھی کچلا گیا، ایک
ساتھ  تین لاشیں گھر  پہنچیں۔
وہ ماں جو اپنے اس بچے کی آس لگائے بیٹھی تھی کہ اس کے لخت جگر کو اُس کا چچا اور والد علاج کے لیے شہر کے بڑے اسپتال لے کر گئے ہیں وہ علاج کے بعد بخیر عافیت لوٹے گا وہ ماں اپنے لکڑیوں اور جھاڑیوں سے بنے کچے گھر کے دروازے پر آس لگائے بیٹھی تھی اسے کیا پتا تھا کہ اس کی زندگی ہی اجڑ گئی ہے اس کے بچے کے ساتھ ساتھ اس کا شوہر اور دیور بھی اس  جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں، اسے ابھی کچھ پتا ہی نہیں تھا، وہ تو اپنے بچے کا انتظار کررہی تھی، اسی اثناء میں ایمبولینسیں آئیں یہ وہ ہی ایمبولینسیں تھیں جن سے  بچے کے والد اور چچا گڑگڑا کر مدد مانگ رہے تھے کہ اس کے بچے کی میت گھر پہنچا دی جائے کیا پتا تھا بچے کی لاش گھر لے جانے کے لیے ان دونوں کو بھی مرنا تھا۔ 
ایک ساتھ تین لاشیں گھر پہنچیں ہر کوئی سکتے میں آگیا، ہر آنکھ اشکبار تھی، ہر کوئی رورہا تھا، فرط جذبات میں آنسو لگاتار بہہ رہے تھے، ہر طرف کہرام برپا تھا، اس سے بڑھ کر اور کیا قیامت ہوسکتی تھی۔
واقعہ میڈیا پر اٹھا پورے ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلا، پھیلنہ بھی تھا یہ اس دن کا سب سے بڑا واقعہ تھا وزیر اعلی سندھ بھی جاگے  چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ کے حکم اور ڈی جی ہیلتھ سندھ کی رپورٹ پر ایم ایس سول اسپتال میرپورخاص ڈاکٹر محمداسلم
میمن اور سول سرجن ڈاکٹر خلیل میمن کو معطل کردیاگیا۔
میرپورخاص کے ٹاؤن تھانے پر رمیشن اور کیول کے والد کھیموں بھیل نے مقدمہ درج کروایا، مقدمہ سول اسپتال انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، مقدمے میں ایم ایس ڈاکٹر اسلم انصاری، سول سرجن ڈاکٹر خلیل میمن، ڈیوٹی ڈاکٹر عادل اورایمبولینس ڈرائیور کو نامزد کیاگیا، مقدمہ میں فریادی کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ ایم ایس اسپتال، سول سرجن سمیت چاروں افراد کی غفلت اور نااہلی کے باعث حادثہ رونما ہوا ہے۔
ملکی میڈیا میں واقعے کو مسلسل اجاگر کرنے پر انکوائری کے لیے  ڈی جی ہیلتھ سندھ  کی جانب سے دو رکنی کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی متاثرہ افراد کے گاؤں پہنچی اور ورثاء سے معلومات اکھٹا کیں، کمیٹی سول اسپتال بھی گئی  جہاں نامزد چاروں ملزمان سول سرجن، ایم ایس، ڈیوٹی ڈاکٹر اور ایمبولینس ڈرائیور کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے وہ فرار ہوچکے تھے، جس کے بعد کمیٹی واپس روانہ ہوگئی۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ  ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کو ارسال کردی،  رپورٹ میں کہاگیا کہ دوسالہ موہن کو گیارہ ستمبر کی رات آٹھ  بجے  اطفال وارڈ لایا گیا جوکہ ڈائریا میں مبتلا تھا اوراس کی حالت نازک تھی،  جہاں اسے طبی امدا دفراہم کی گئی لیکن دوران علاج تیرہ ستمبر کی دوپہر دوبجے بچے کو اس کے والد بغیرکسی اطلاع یااجازت کے وہاں سے لے گئے  تاہم حالت بگڑنے پر بچے کو اسی روزپھر دوبارہ رات دس بجے اطفال وارڈ لے آئے تاہم بچہ جانبرنہ رہ سکا اور چودہ ستمبر کی علی الصبح ساڑھے تین بجے انتقال کرگیا۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت کی مریض کو منتقلی کے لیے فیول کی فراہمی اسپتال انتظامیہ کی ذمہ داری تھی لیکن میڈیکل آفیسر ایمبولینس کو فیول فراہم کرنے میں ناکام رہے جبکہ ایمبولنس ڈرائیور نے لواحقین سے فیول کے لیے پیسے طلب کیے، رپورٹ میں اس پورے معاملے میں غفلت برتنے پر  ایم ایس اسپتال ڈاکٹر اسلم انصاری سمیت سول سرجن ڈاکٹر خلیل میمن،  گیٹ پاس اور ڈیتھ سرٹیفیکٹ جاری نہ کرنے پر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر جاوید جروار سمیت  واقعے کی اطلاع انتظامیہ کو نہ دینے پر سی ایم او ڈاکٹر عادل   کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
واقعے کی رپورٹ پیش کردی گئی ہے، اب اس پر عمل ہونا چاہیے، ملوث افراد کو  سخت سے سخت سزا دینی چاہیے، غفلت کے مرتکب افراد کو نشان عبرت بنانا چاہیے تاکہ آئندہ ایسا وزاقعہ رونما نہ ہو۔  پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیت کی نمائندگی کرتا ہے، ہمیں اس رنگ کی لاج رکھنی ہوگی، یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ متاثرہ افراد کا تعلقق اقلیتی بھیل برادری سسے تھا اسی لیے انہیں مطلوبہ سہولیات فراہم نہیں کی گئیں، اس تاثر کو بھی ختم کرنا ہوگا۔

از قلم: وارث بن اعظم

Mery Bhooky Piyasy Thar me Zindagi Loot Aayi

میرے بھوکے پیاسے تھر میں زندگی لوٹ آئی

کہتے ہیں خدا جب بھی دیتا ہے، دیتا چھپڑ پھاڑ کرہے، تھرپارکر سے روٹھے بادل سات سالوں بعد جم کر کیا برسے زندگی کی رونقیں تھر میں دوبارہ لوٹ آئی ہیں، قحط سے تباہ حال، روزانہ بھوکے بچوں کو نگلنے والا صحرا، جہاں  موت بچوں کے پیچھے ہاتھ دھو کرپڑگئی تھی اور بھوک تواتر سے بچوں کو نگل رہی تھی، جہاں  بچوں کی ہلا  کتوں کا سلسلہ تھمنے کانام نہیں لے  رہا تھا، جہاں غذائی قلت کے باعث روزانہ کی بنیاد پرننھے پھول موت کی آغوش میں جارہے تھے، جہاں صرف  2018 میں 647  بچے موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ جہاں 2019 کے شروع کے پانچ ماہ میں بھی بچے تواتر سے جان کی بازی ہار رہے تھے، جہاں قدرتی کوئلے سے مالا مال ضلع تھر پارکر کے کوئلے سے پاکستان  بھر میں روشنیوں کی نوید سنائی جارہی تھی تو وہیں دوسری جانب تھر میں موت کا رقص تیز سے تیز تر ہوتا جارہا تھا،  اسی بھوکے پیاسے تھر میں اللہ کی قدرت نے اپنے جوہر دکھانا شروع کیے اور رحمت کی ایسی بارشیں برسیں کہ  روزانہ ہوتی ہلاکتیں تھمنے لگیں، بھوکا پیاسا صحرا  ہرا بھرا ہونے لگا، بھوک و افلاس کا شکار مقامی رہائشیوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے، نقل مکانی کرکے جانے والوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ملک بھر سے سیاحوں نے بھی دوبارہ تھر کا رخ
کرلیا۔
زندگی کی نئی امید ایک بار پھر تھر کے باسیوں کے چہروں پر واپس لوٹنے لگی، خشک سالی سے تنگ آکر نقل مکانی کرکے جانے والے تھر کے مکین واپس اپنے گھروں کو نہ صرف لوٹ رہے ہیں بلکہ بارش کے جمع شدہ پانی سے کھیتی باڑی بھی کررہے ہیں، تھر میں بارشوں کے بعد ہر طرف ہریالی آگئی ہے، برسوں سے سوکھے تالاب پانی سے بھر گئے ہیں، سات سالوں سے جاری تھر سے قحط کے بادل ٹلنے لگے ہیں۔ 
تھرپارکر میں بارش کے بعد ریتیلا تھر، ہرے بھرے جنگل میں تبدیل ہو گیا ہے، برسوں سے سونے کھیتوں میں ہریالی ہی ہریالی ہوگئی ہے، تھرپارکر کے کسان اس سال ہرے بھرے کھیتوں کو دیکھ کر خوش دکھائی دے رہے ہیں تو وہیں مویشیوں کی  بھی برسوں کی بھوک اس سال مٹنا شروع ہوگئی ہے، تھر کے پہاڑی علاقے ننگرپارکر میں بھی بارشوں کے بعد  ہر طرف جل تھل ہے، ہرطرف سبزے سے پہاڑی تفریحی مقام کی خوبصورتی مزیدبڑھ گئی ہے، سیاحوں کوخوش آمدیدکہنے کیلئے مقامی گلوکاربھی پہاڑوں اور جھونپڑیوں کے سامنے بیٹھ کرمختلف سربکھیرنے میں مگن ہیں، تھر میں مور بھی رقص کرنے لگے ہیں، بارشوں سے ہرچیزنکھرگئی ہے، تھریوں کے ساتھ ساتھ سیاح بھی خوش ہیں۔
تھر کے زیادہ تر مکینوں کا ذریعہ معاش مویشی ہیں، جبکہ پانی کی قلت اور چارے کی کمی کے باعث مویشی بھی تیزی سے ہلاک ہورہے  تھے، جہاں بھوک و افلاس کے باعث خودکشیاں معمولی بات بن گئی تھیں وہاں پھر زندگی لوٹ آئی ہے، تھری
جھوم رہے ہیں، خدا کی قدرت کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔
صحرائے تھر میں طویل عرصے کے بعد ہندو برادری نے اپنا تیج تہوار جوش وخروش کے ساتھ منایا۔ تیج تہوار، ہمیشہ برسات کے بعد منایا جاتا ہے، بارشوں کے بعد ہندو برادری کی گاؤں سے دور بیاہی گئی خواتین تیج تہوار منانے اپنے میکے آئیں، تھرپارکر میں پکی سڑکیں نہ ہونے سے آج بھی تھری کیکڑوں (ٹرک) اور اونٹھوں پر سفر کرتے ہیں اور سفری مشقت کے باوجود  طویل عرصے کے بعد ساون کی ایسی جھڑی لگی کہ شادی شدہ بیٹیاں بھی اپنے والدین کے گھروں، برسات کی خوشیاں منانے آئیں اور انہوں نے کئی عرصے بعد
اپنے والدین کے چہرے کھلتے ہوئے دیکھے۔
میرے بھوکے پیاسے تھر میں زندگی لوٹ آئی ہے، بچوں کو نگلتے میرے تھر کی پیاس اب مٹنے لگی ہے، میرے تھر میں ننھے پھولوں کے مرجھانے کا سلسلہ رک گیا ہے، میرا تھر آباد ہوگیا ہے، ہرا بھرا ہوگیا ہے، ریتیلے  پہاڑوں نے سبز چادر اوڑھ لی ہے، سات سالہ قحط ختم ہونے لگا ہے، آج تھری جھوم رہے ہیں، فصلوں کی کاشت شروع ہوچکی ہے، سیاح جوق درجوق آرہے ہیں، تھر کا رکا کاروبار پھر چل پڑا ہے، مور پھر سے گنگنانے لگے ہیں، کارونجھر کے پہاڑ پھر سیاحوں سے بھر گئے ہیں،  میرے تھر کے تالاب پھر بھر گئے ہیں، گویا  میرے تھری باسیوں کے مرجھائے چہرے کھل اٹھے ہیں، روز ہوتی خودکشیاں کم ہونے لگی ہیں،  میرے بھوکے پیاسے تھر میں زندگی لوٹ آئی ہے، اے میرے خدا میرے تھر کو یوں ہی آباد رکھنا۔

از قلم: وارث بن اعظم 

Friday, 13 September 2019

Bilawal Bhutto Aur Sindhudesh

بلاول بھٹو اور سندھو دیش کا بیانیہ

وفاق کی علامت کہلائے جانے والی بے نظیر  بھٹو کے لخت جگر بلاول بھٹو نے سندھو دیش کے دفن نعرے میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، بلاول  بھٹو نے جمعرات کے روز حیدرآباد میں میٹ دی پریس سے خطاب کیا، اس روز بلاول کے ہاتھ میں کوئی پرچی نہیں تھی، اس نے کچھ دیکھ کر نہیں کہا، بلاول بغیر پرچی کے اٹھائیس منٹ تک بولا اس کے بعد آدھے گھنٹے سے زائد صحافیوں کے سوالات کے جواب دئے،  بلاول کا انداز جارحانہ تھا، ایک روز قبل ہی وفاقی وزیر قانون نے کراچی کو انتظامی طور پروفاق سے کنٹرول کرنے کی بات کی تھی، وہ بلاول کے خطاب سے قبل اپنا بیان واپس لے چکے تھے، لیکن بات تو کی تھی، مسئلہ تو اٹھایا تھا، جواب تو بنتا تھا،  خطاب سے قبل بلاول بھٹو کو  پریس کلب کا اعزازی ممبر بنایا گیا، بلاول  بھٹو نے اپنے خطاب کے دوران حکومت وقت کو للکارتے ہوئے کہا کہ ظلم ایک حد تک برداشت ہوسکتا ہے، کل بنگلا دیش بنا تھا، اگر ظلم کرتے رہے تو کل سندھو دیش بھی بن سکتا ہے اور پختونستان بھی، بلاول نے کہا یہ لوگ آئین کی خلاف ورزی کرتے جارہے ہیں،کراچی پر غیر آئینی قبضے کی کوشش کی تو حکومت کو گھر جانا پڑے گا، بلاول کا یہ بیانیہ سندھ میں تیزی سے مقبول ہوگیا، سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اسے تیزی کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے،
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس بیانئے کو حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھا، کئی افراد نے تو سوشل میڈیا پر اپنے طور ہی بلاول کو غدار کے القابات سے نوازانا شروع کردیا، بلاول کے اس بیانئے پر قوم پرست پھر
یکجا ہونا شروع ہوچکے ہیں، بلاول سندھ کارڈ کھیل چکا ہے اور یہ ایک حقیقیت ہے۔
سندھو دیش کے نعرے سے لاکھ اختلاف سہی  لیکن بلاول اپنی اس بیانئے پر  چل پڑا تو نتائج خطارناک ہوسکتے ہیں، کشمیر  پر بھارتی بربریت جاری ہے، ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ سے شہادتیں بھی ہورہی ہیں، بھارتی آرمی چیف آزاد کشمیر سے متعلق بھی بیان دے چکے، صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے، کشمیری  ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، بیلٹ گنز کا شکار ہورہے ہیں، ایسے میں ملکی یکجہتی کی جگہ کراچی سے متعلق بیان  سوچنے کے مترادف ہے، ملک حالت جنگ میں ہے،
حکومتی وزراء کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ نومبر دسمبر میں جنگ ہوسکتی ہے۔
اس وقت ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، یکجہتی کی فضاء قائم کرنی ہے، دنیا کو مضبوط پیغام دینا ہے، لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے، حکومت بشمول سیکیورٹی اداروں کو سوچنا ہوگا، بلاول کا بیانیہ خطرناک ہے، بلاول نے ابھی یہ نہیں کہا کہ سندھودیش بنے گا، اس نے کہا بن سکتا ہے، ہمارا ملک پہلے بھی ٹوٹا تھا، خدارا اب یکجا  ہوجاؤ، اس ملک کو ٹوٹنے سے بچانا ہے، اب اگر کچھ ہوا تو بلاول کے اس بیانیے کے مطابق صرف سندھودیش نہیں بلکہ سرائیکی اور پختون دیش بھی بن سکتے ہیں، بلاول نے مقتدر قوتوں کو  اشارہ دیا ہے کہ اب بھی وقت ہے، یکجا ہوجاؤ، بلاول کے اس بیان سے انحراف نہیں ہوا جاسکتا، ملکی اداروں اور حکومت وقت کو سوچنا ہوگا کہیں پھر سے غلطی نہ ہوجائے، کہیں اس کا کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھا لے، بھارت میں تو اب تک خالصتان نہیں بنا کہیں ہمارا ملک دو لخت نہ ہوجائے، ہمیں سوچنا ہوگا، آخر کیوں وفاق کی علامت کہلائی جانے والی پارٹی کے چیئرمین نے یہ بیانیہ اختیار کیا، بلاول بھٹو کے والد سابق صدر آصف زرادری نے  الیکشن کے بعد اپوزیشن کے اسمبلیاں توڑنے کے بیانات کی  مخالفت کی، بلاول نے خود بھی حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمان کے اعلانیہ لانگ مارچ سے خود کو دور کیا،  آرٹیکل 149 کے بیان کے بعد سندھ میں موجود پی ٹی آئی کے اندر سے بھی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں، گھوٹکی کا ایک پی ٹی آئی ایم پی اے وزیر قانون کے اس بیان کی کھلم کھلا مخالفت کرچکا ہے، حکومت کی اتحادی جی ڈی اے کے سربراہ پیر صاحب پگارا بھی اس کے خلاف اپنا بیان دے چکے، اس میں کوئی دوراہا نہیں کہ سندھ میں رہنے والے سندھیوں کو سندھ سے کتنی محبت ہے وہ اس پر مر مٹنے کی باتیں کرتے ہیں ابھی بھی وقت ہے سوچنا ہوگا۔، اس ملک کو بچانا ہوگا، یکجہتی کی فضاء قائم کرنا ہوگی۔